بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: اس موضوع پر جناب حضرت مولانا حافظ عبد الحق صاحب زید مجدہم استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک مفصل ، مدلل رسالہ چھپ رہا ہے جس کا نام ہے ’’اذان خطبہ کہاں ہو؟‘‘ حضرت امام محمد بن اسحٰق پر جو کچھ اس دیوبندی نے لکھا ہے وہ سب اس سے برسوں پہلے اشرفعلی تھانوی صاحب لکھ چکے ہیں جس کے جوابات حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ۱۳۳۲ھ ’’وقایۃ اہل السنۃ‘‘ میں تحریر فرما دیئے ہیں جو اس رسالہ میں شامل ہے۔ صحیح اور راجح یہ ہے کہ امام ابن اسحق حدیث میں بھی ثقہ اور معتمد ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں شواہد اور متتابعات ان سے روایت کی ہیں۔ بقیہ اصحاب سنن نے ان کی رواتیں لی ہیں۔ اس جاہل کو اس کی کیا خبر ۔ امام ابو داؤد نے اس روایت پر سکوت فرمایا ہے اور ان کا سکوت اس کی دلیل ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک حسن ضرور ہے ۔ آثار السنن کا مصنف نیموی غالی، متعصب، دیوبندی ہے اس نے از راہ عناد وتعصب اس حدیث کو شاذ کہا ہے۔ اس نے شاذ ہونے کی جو دلیل دی ہے اسے خود نیموی سے بھی بڑے بوڑھے دیوبندی خلیل احمد انبیٹھی نے بذل المجہود میں رد کر دیا ہے۔ لکھا : لا منافاۃ بین قولہ ’’بین یدي رسول اللہ ﷺ ‘‘ و’’علی باب المسجد‘‘۔ اور یہ نیموی منافات جانتا ہے ’’بین یدی‘‘ کا معنی یہ بتاتا ہے کہ امام کے قریب پہلی صف میں ہو حالاں کہ ’’بین یدی‘‘ کے معنی نہ قریب کے ہیں نہ متصل کے صرف سامنے کے ہیں قریب ہو یا دور ۔ قرآن مجید میں ہے : ’’ اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ‘‘۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے جو ان کے سامنے اور پیچھے آسمان اور زمین ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے: زمین سے آسمان کا فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہے(عن ابن عباس بن عبد المطلب رضي اللہ تعالی عنہ قال : كنا جلوسا مع رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم- بالبطحاء فمرت سحابۃ، فقال رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم- ’’أتدرون ما ھذا‘‘؟ قال: قلنا :السحاب، قال: ’’والمزن‘‘، قلنا: والمزن۔ قال: ’’والعنان‘‘، قال: فسكتنا، فقال: ’’ھل تدرون كم بين السماء والأرض‘‘؟ قلنا: اللہ ورسولہ أعلم، قال: بينھما مسيرۃ خمسمائۃ سنۃ ۔ [مسند الإمام أحمد بن حنبل،۳/۲۹۲، رقم الحدیث: ۱۷۷] محمود علی المشاہدي)۔ اور نیموی جاہل چند ہاتھ کے فاصلے کو ’’بین یدي‘‘ کے منافی جانتا ہے، اس حدیث کو شاذ سواے نیموی کے کسی محدث ، یا کسی فقیہ نے نہیں کہا ہے ۔ انبیٹھی نے اس حدیث پر کوئی کلام نہیں کیا ، یہ دلیل ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک بھی صحیح ہے، دیوبندیوں کے سب سے بڑے محدث انور صاحب کشمیری نے اس حدیث کو سامنے رکھ کر ’’العرف الشذی‘‘ میں لکھا ہے: ولکن في سنن أبي داؤد،ص:۱۵۵ ما یدل علی أن یکون في خارج المسجد علی الباب۔ لیکن سنن أبو داؤد،ص:۱۵۵ پر جو حدیث ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر مسجد کے دروازے پر ہونی چاہیے۔ اس عبارت سے تین فائدے حاصل ہوئے: (۱) ’’بین یدي‘‘ کا معنی صرف سامنے کے ہیں- قریب متصل کے نہیں- جو خارج مسجد کے دروازے تک پر صادق ۔ (۲) انور کشمیری صاحب کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے ورنہ وہ اس سے استدلال کیوں کرتے۔ (۳) یہ کہ کشمیری صاحب کے نزدیک بھی حق یہ ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہونی چاہیے۔ کشمیری صاحب دیو بندیوں کے سب سے بڑے محدث ہیں ان کے مقابلے میں نیموی طفل مکتب ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ الغرض دیوبندی جماعت کے بڑے بوڑھوں کو یہ تسلیم ہے کہ حدیث صحیح ورنہ حسن ضرور ہے ورنہ اس سے استدلال صحیح نہ ہوتا اور نیموی نے جو کچھ لکھا وہ صرف دیوبندی مذہب کے تعصب میں از راہ عناد لکھا ہے جو سراسر فریب اور دھوکا ہے۔ نیموی جاہل نے گردن پھلانگنے سے جو استدلال کیا ہے وہ بھی اس کی جہالت ہے، گردن پھلانگنا اس وقت منع ہے جب ضرورت نہ ہو۔ اور ضرورت کے وقت بلا شبہہ جائز ۔ مثلاً اگلی صف میں جگہ خالی ہے پیچھے مسجد بھر گئی ہے جیسا کہ جاڑوں میں اکثر ہوتا ہے ، [یا] امام تاخیر سے آیا مسجد بھری ہوئی ہے تو وہ گردن پھلانگ کر مصلی تک جائے گا اس پر کوئی گناہ نہیں، اسی طرح مؤذن اقامت کہنے کے لیے گردن پھلانگ کر جا سکتا ہے۔ اخیر میں یہ کہنا ہے کہ حدیث پر تو اس نے منہ مارا مگر فقہاے احناف نے جو فرمایا: لا یؤذن في المسجد، ویکرہ أن یؤذن في المسجد، لکراہۃ الأذان في المسجد، اور ’’المسنون ہو الثانی‘‘ کا کیا جواب؟ اس جاہل پر خود کئی وجہ سے توبہ فرض ہے ایک حدیث صحیح کو شاذ کہا، ایک حدیث صحیح کو رد کیا، لوگوں کو سنت پر عمل کرنے سےروکا، سنت کے خلاف بدعت کی تائید کی، سنت زندہ کرنے والے سے توبہ کا مطالبہ کیا۔ اذان ثانی کی بحث نزہۃ القاری شرح بخاری، جلد ثالث،ص:۳۲۸۔ لغایت،ص:۳۵۲ پر موجود ہے اسے دیکھ لیں وہی کافی ہوگی اور رسالے کا انتظار کریں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org