22 December, 2024


دارالاِفتاء


عرض یہ ہے کہ آپ کا پرچہ میری نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر بڑاقلق ہوا کہ دانش وروں کے دماغ میں بھی کذب اور عوام الناس کو ورغلانے کا مادہ پیدا ہو چلا ہے۔ سیدھے سادھے مسلم عوام کو بے سر وپا کی دلیل دے کر انھیں اپنے حلقہ میں شامل کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ آپ نے کیا ہے۔ ضعیف روایت بیان کر کے لوگوں کو گمراہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا اور اس پر بھی یہ لکھنا کہ فقہاے احناف کی کسی معتبر کتاب میں مسجد کے اندر اذان ثانی (خطبہ کی اذان) منبر کے سامنے دینا ثابت نہیں یہ سراسر کذب بیانی ہے۔ لوگوں کو فریب دینے کے لیے ایسا آپ نے کیا ہے لہذا میں آپ کے حوالہ نمبر (۱) کی روایت نقل کر کے اس پر فقہاے احناف کی راے فراہم کرتا ہوں، آیا یہ روایت صحیح ہے یا غلط، ضعیف ہے یا قوی اور اس سے استدلال کرنا درست ہے یا نہیں، ملاحظہ ہو۔ عن السائب بن یزید قال: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ. رواہ أبو داؤد،ج:۱،ص:۱۵۵۔ سائب بن یزید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اذان دی جاتی تھی مسجد کے دروازے پر جب آپ منبر پر بیٹھ جاتے اور حضرت ابو بکر وعمر کے زمانے میں بھی ایسا ہی رہا۔ لیکن علامہ جمیل صاحب آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جو روایت آپ مشتہر کروا رہے ہیں بہت ہی ضعیف روایت ہے، وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی میں ایک نام محمد بن اسحاق کا آتاہے اور محمد بن اسحاق کو حدیث کے معاملے میں انتہائی ضعیف راوی قرار دیا گیا ہے۔ اب ملاحظہ فرمائیں محدثین کی رائے۔ امام نسائی فرماتے ہیں: أنہ لیس بالقوی۔ (یعنی یہ قوی نہیں) ۔ امام دار قطنی فرماتے ہیں : لا یحتج بہ۔ (اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔ امام مالک نے محمد ابن اسحاق کو ’’دجال من الدجاجلۃ‘‘ (دجالوں میں سے ایک دجال) قرار دیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق محمد ابن اسحاق کا تعلق رفض وتشیع سے تھا۔ (تہذیب التہذیب، ج۹،ص:۴۱، میزان الاعتلال ،ج۳،ص:۳۱۰۔ ) بعض محدثین نے تعدیل بھی کی ہے مگر محدثین کے مابین محمد ابن اسحاق کی جرح وتعدیل کے متعلق اتنا شدید اختلاف ہےکہ کسی دوسرے راوی کے متعلق اتنا اختلاف نظر نہیں آتا۔ اور اصول حدیث کا یہ متفقہ قاعدہ ہے کہ جرح، تعدیل پر مقدم وراجح ہے۔ لہذا اگر کسی حدیث کے کسی راوی کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل مختلف ہوں تو اس کا کم سے کم یہ اثر ضرور ظاہر ہو تا ہے کہ وہ حدیث ضعیف بن جاتی ہے اور اس سے استدلال درست نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے ابو داؤد شریف کی مندرجہ بالا روایت قابل استدلال نہیں کیوں کہ اس کے سلسلہ روات میں محمد بن اسحاق کی موجودگی نے اسے ضعیف اور ناقابل استدلال بنا دیا ۔ اس کے علاوہ ابو داؤد شریف میں اس حدیث کا سلسلہ سند یوں بیان کیا ہے: ثـنا النفیلی حدثنا محمد بن سلمۃ عن محمد بن اسحاق عن الزہري عن سائب بن یزید۔ (ج اول،ص:۱۵۵) حدیث بیان کی ہم سے نفیلی نے انھوں نے کہا حدیث بیان کی مجھ سے محمد بن سلمہ نے انھوں نے محمد بن اسحق سے انھوں نے امام زہری سے انھوں نے سائب بن یزید سے۔ یعنی محمد بن اسحق نے شہاب زہری سے انھوں نے صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس روایت کو شہاب زہری سے نقل کرنے والے تنہا محمد بن اسحق نہیں، شہاب زہری کے اور بھی کئی شاگرد ہیں مگر ’’علی باب المسجد‘‘ (مسجد کے دروازہ پر) کے لفظ کسی نے بھی راویت نہیں کیا۔ یہ الفاظ صرف محمد بن اسحاق کی روایت میں ہیں،جب کہ حدیث کے باب میں امام زہری کے دیگر شاگرد محمد بن اسحاق سے کہیں زیادہ ثقہ اور قابل اعتماد مانے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے ’’علی باب المسجد‘‘ کے الفاظ میں محمد بن اسحاق کے تفرد نے اس روایت کو غیر محفوظ اور شاذ بنا دیا اور یہ بھی ضعیف روایتوں کی ایک قسم ہے۔ مقدمہ مشکات شریف میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: والشاذ في اللغۃ من تفرد عن الجماعۃ وخرج منہا۔ وفي الاصطلاح ما روی مخالفا لما رواہ الثقات فإن لم یکن رواتہ ثقۃ فہو مردود، وإن کان ثقۃ فسبیلہ الترجیح بمزید حفظ وضبط أو کثرۃ عدد ووجوہ آخر من الترجیحات، فالراجح یسمی محفوظا، والمرجوح شاذا۔ (مشکوۃ شریف،ص:۴) شاذ لغت میں اسے کہتے ہیں جو ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہو پس اگر شاذ کے راوی غیر ثقہ ہوں تو وہ مردود ہے اور اگر وہ ثقہ ہوں تو حفظ وضبط اورکثرت تعداد اور دیگر وجوہ سے دونوں روایتوں کے درمیان ترجیح ہوگی ۔ راجح روایت کو محفوظ اور مرجوح کو شاذ کہا جائے گا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: فالراجح یقال لہ المحفوظ ومقابلہ ہو المرجوح یقال لہ الشاذ۔ (شرح نخبۃ الفکر،ص:۳۹) محمد بن اسحق حدیث کے باب میں ثقہ بھی نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنی روایت کے ذریعے ثقات کی مخالفت کردی، اس لحاظ سے یہ حدیث نہ صرف شاذ ہوئی بلکہ شاذ کی ادنی قسم ’’مردود‘‘ میں شامل ہوئی جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے۔ اب یہ پتہ لگانے کے لیے کہ محمد بن اسحاق نے الفاظ روایت ’’علی باب المسجد‘‘ کے ذریعہ ثقات کی مخالفت کی ہے یا نہیں۔ محدث کبیر علامہ محمد بن علی نیموی کی آثار السنن جزء ثانی ملاحظہ کیجیے: علامہ محمد بن نیموی محمد بن اسحق کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’علی باب المسجد‘‘ غیر محفوظ ۔ (آثار السنن ج۲،ص۹۴) علی باب لمسجد غیر محفوظ ہے۔ پھر حاشیہ التعلیق الحسن میں لکھتے ہیں: قولہ: غیر محفوظ، قلت: تفرد بہ محمد بن اسحاق عن زہري عن السائب بن یزید وخالفہ غیر واحد من أصحاب الزہري یونس، عقیل، الماجشون عند البخاري وغیرہ، وابن أبي الذئب عند أحمد وأبي داؤد وابن ماجہ، وصالح وسلیمان التیمي عند النسائي کلہم عن الزہري عن السائب بن یزید بدون ہذا اللفظ، وقد رواہ محمد بن اسحاق أیضا عن الزہري بدون ہذا اللفظ في روایۃ عند أحمد بلفظ کان بلال یؤذن إذا جلس رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- علی المنبر یوم الجمعۃ ویقیم إذا نزل ولأبي بکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما حتی کان عثمان ۔ میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ کو زہری سے وہ سائب بن یزید سے روایت کرنے میں محمد بن اسحاق تنہا ہے اور زہری کے کئی شاگر اس کے مخالف ہیں۔ مثلا یونس، عقیل، ماجشون، بخاری وغیرہ میں، اور ابن ابی الذئب مسند احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں، اور صالح اور سلیمان تیمی نسائی میں یہ سب کے سب اس روایت کو زہری سے سائب بن یزید کی سند سے نقل کرتے ہیں۔ مگر ان کی روایتوں میں یہ الفاظ (علی باب المسجد) نہیں ہیں۔ خود محمد بن اسحاق نے بھی مسند احمد میں ایک جگہ ان الفاظ کے بغیر نقل کیا ہے وہ یہ کہ: حضرت بلال اذان دیتے تھے جمعہ کے دن جب رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھتے، اور اقامت کہتے جب منبر سے اتر تے۔ ایسے ہی حضرت ابو بکر وعمر کے زمانے میں بھی رہا یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک اور اذان کا حکم فرمایا۔ علامہ نیموی کہتے ہیں کہ محمد بن اسحق کی اس روایت کا ابتدائی حصہ آخری حصہ کے متعارض ہے کیوں کہ روایت کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں: کان یؤذن بین یدي رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- إذا جلس علی المنبر ۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اذان دی جاتی تھی جب آپ منبر پر بیٹھ جاتے تھے اور آخری الفاظ یہ ہے ’’علی باب المسجد‘‘ ۔ مسجد کے دروازے پر ۔ ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ’’سامنے ‘‘ اس حصہ کو کہا جاتا ہے جو منبر کے پاس والی صف کا حصہ ہو اور کئی صفوں کے بعد دروازہ والے حصہ کو سامنے نہیں کہا جاتا۔ (حوالہ مذکورہ) حقیقت یہ ہے کہ اگر محمد بن اسحق کی یہ روایت اسقام وعلل سے خالی اور لائق استناد وقابل استدلال ہوتی تو فقہاے احناف اسے ضرور قبول کرتے لیکن فقہاے احناف کا بالاتفاق اسے رد کردینا اور مسجد کے دروازے کے بجاے منبر کے پاس خطیب کے سامنے اذان ثانی کی عبارتیں لانا صریح دلیل ہے کہ ائمہ احناف اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں اور اس سے استدلال درست نہیں سمجھتے۔ اور پوری امت کا توارث وتعامل بھی یہی ہے جو بجاے خود حجت شرعی ہے۔ مگر مولانا جمیل صاحب اشرفی کو اپنی خود کی اندھی تقلید کی سوجھتی ہے اور جناب اس ضعیف حدیث کا سہارا لے کر استدلال کرتے ہیں جس حدیث کو بالاتفاق فقہاے احناف ضعیف کہتے ہیں۔ علامہ نیموی کا ایک استدلال ملاحظہ ہو۔ اذان ثانی مسجد میں منبر کے سامنے ہونے کے متعلق اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے: عن السائب بن یزید قال: كَانَ بلال يُؤَذَّنُ إذا جلس رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فإذا نزل أقام ثم کان کذلک في زمن أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ.(نسائی:ج۱،ص:۲۰۷) سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت بلال اذان دیتے تھے جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتے پس جب اترتے تو اقامت کہتے پھر حضرت ابو بکر وعمر کے زمانۂ خلافت میں بھی اسی طر ح رہا۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد میں حضور کے سامنے منبر کے پاس ہوا کرتی تھی۔ ورنہ اگر حضرت بلال مسجد کے باہر دروازے پر اذان دیتے تو اندر آنے اور اقامت کہنے کے لیے لازما لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آنا پڑتا۔ بلکہ جانا پڑتا گردنیں پھلانگ کر، اور آنا بھی پڑتا۔ جب کہ حضور ﷺ نے جمعہ میں بطور خاص گردنوں کو پھلانگ کر آنے جانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ایک طرف حضور گردنوں کو پھلانگنے پر غصہ کا اظہار فرمائیں اور سختی سے منع کریں اور دوسری طرف حضرت بلال سے وہی کام کرائیں۔ معلوم ہوا کہ حضرت بلال منبر کے سامنے اذان دیا کرتے تھے وہیں موجود بھی رہتے تھے اور خطبہ کے بعد اقامت بھی کہہ دیتے تھے۔ کہیں آنے جانے کی نوبت نہیں آتی تھی کہ گردنوں کو پھلانگنا لازم آئے۔ جمعہ کے دن گردنیں پھلانگ کر آنے جانے کی ممانعت بہت سی احادیث میں وارد ہے۔ ایک حدیث درج ذیل ہے: عن معاذ بن أنس الجہني عن أبیہ قال: قال رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم-: من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم۔ (ترمذی، ج۱، ص۶۷) معاذ بن انس الجہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اس نےجہنم کی جانب پل باندھا (بنایا)۔ اب مولانا جمیل صاحب حتماً وایماناً یہ بتائیں کہ کیا یہ حدیث ثقہ ہے اور اس سے استدلال درست ہے میں تو سمجھتا ہوں کہ اس سے قطعی استدلال درست نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا روایتوں سے پتہ چلتا ہے ، لہذا جمیل صاحب فوراً توبہ استغفار کیجیے۔ اس امر پر کہ فقہاے احناف کے یہاں کی معتبر کتابوں میں مسجد کے اندر اذان ثانی دینا مکروہ ہے اور بدعت ۔ بدعت اس لیے لکھا کہ آپ کے احمد رضا صاحب مسجد کے اندر خطیب کے سامنے اذان دینا بدعت گردانتے ہیں ورنہ عتاب الہی سے ڈریے۔

فتاویٰ #1484

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: اس موضوع پر جناب حضرت مولانا حافظ عبد الحق صاحب زید مجدہم استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک مفصل ، مدلل رسالہ چھپ رہا ہے جس کا نام ہے ’’اذان خطبہ کہاں ہو؟‘‘ حضرت امام محمد بن اسحٰق پر جو کچھ اس دیوبندی نے لکھا ہے وہ سب اس سے برسوں پہلے اشرفعلی تھانوی صاحب لکھ چکے ہیں جس کے جوابات حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ۱۳۳۲ھ ’’وقایۃ اہل السنۃ‘‘ میں تحریر فرما دیئے ہیں جو اس رسالہ میں شامل ہے۔ صحیح اور راجح یہ ہے کہ امام ابن اسحق حدیث میں بھی ثقہ اور معتمد ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں شواہد اور متتابعات ان سے روایت کی ہیں۔ بقیہ اصحاب سنن نے ان کی رواتیں لی ہیں۔ اس جاہل کو اس کی کیا خبر ۔ امام ابو داؤد نے اس روایت پر سکوت فرمایا ہے اور ان کا سکوت اس کی دلیل ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک حسن ضرور ہے ۔ آثار السنن کا مصنف نیموی غالی، متعصب، دیوبندی ہے اس نے از راہ عناد وتعصب اس حدیث کو شاذ کہا ہے۔ اس نے شاذ ہونے کی جو دلیل دی ہے اسے خود نیموی سے بھی بڑے بوڑھے دیوبندی خلیل احمد انبیٹھی نے بذل المجہود میں رد کر دیا ہے۔ لکھا : لا منافاۃ بین قولہ ’’بین یدي رسول اللہ ﷺ ‘‘ و’’علی باب المسجد‘‘۔ اور یہ نیموی منافات جانتا ہے ’’بین یدی‘‘ کا معنی یہ بتاتا ہے کہ امام کے قریب پہلی صف میں ہو حالاں کہ ’’بین یدی‘‘ کے معنی نہ قریب کے ہیں نہ متصل کے صرف سامنے کے ہیں قریب ہو یا دور ۔ قرآن مجید میں ہے : ’’ اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ‘‘۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے جو ان کے سامنے اور پیچھے آسمان اور زمین ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے: زمین سے آسمان کا فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہے(عن ابن عباس بن عبد المطلب رضي اللہ تعالی عنہ قال : كنا جلوسا مع رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم- بالبطحاء فمرت سحابۃ، فقال رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم- ’’أتدرون ما ھذا‘‘؟ قال: قلنا :السحاب، قال: ’’والمزن‘‘، قلنا: والمزن۔ قال: ’’والعنان‘‘، قال: فسكتنا، فقال: ’’ھل تدرون كم بين السماء والأرض‘‘؟ قلنا: اللہ ورسولہ أعلم، قال: بينھما مسيرۃ خمسمائۃ سنۃ ۔ [مسند الإمام أحمد بن حنبل،۳/۲۹۲، رقم الحدیث: ۱۷۷] محمود علی المشاہدي)۔ اور نیموی جاہل چند ہاتھ کے فاصلے کو ’’بین یدي‘‘ کے منافی جانتا ہے، اس حدیث کو شاذ سواے نیموی کے کسی محدث ، یا کسی فقیہ نے نہیں کہا ہے ۔ انبیٹھی نے اس حدیث پر کوئی کلام نہیں کیا ، یہ دلیل ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک بھی صحیح ہے، دیوبندیوں کے سب سے بڑے محدث انور صاحب کشمیری نے اس حدیث کو سامنے رکھ کر ’’العرف الشذی‘‘ میں لکھا ہے: ولکن في سنن أبي داؤد،ص:۱۵۵ ما یدل علی أن یکون في خارج المسجد علی الباب۔ لیکن سنن أبو داؤد،ص:۱۵۵ پر جو حدیث ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر مسجد کے دروازے پر ہونی چاہیے۔ اس عبارت سے تین فائدے حاصل ہوئے: (۱) ’’بین یدي‘‘ کا معنی صرف سامنے کے ہیں- قریب متصل کے نہیں- جو خارج مسجد کے دروازے تک پر صادق ۔ (۲) انور کشمیری صاحب کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے ورنہ وہ اس سے استدلال کیوں کرتے۔ (۳) یہ کہ کشمیری صاحب کے نزدیک بھی حق یہ ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہونی چاہیے۔ کشمیری صاحب دیو بندیوں کے سب سے بڑے محدث ہیں ان کے مقابلے میں نیموی طفل مکتب ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ الغرض دیوبندی جماعت کے بڑے بوڑھوں کو یہ تسلیم ہے کہ حدیث صحیح ورنہ حسن ضرور ہے ورنہ اس سے استدلال صحیح نہ ہوتا اور نیموی نے جو کچھ لکھا وہ صرف دیوبندی مذہب کے تعصب میں از راہ عناد لکھا ہے جو سراسر فریب اور دھوکا ہے۔ نیموی جاہل نے گردن پھلانگنے سے جو استدلال کیا ہے وہ بھی اس کی جہالت ہے، گردن پھلانگنا اس وقت منع ہے جب ضرورت نہ ہو۔ اور ضرورت کے وقت بلا شبہہ جائز ۔ مثلاً اگلی صف میں جگہ خالی ہے پیچھے مسجد بھر گئی ہے جیسا کہ جاڑوں میں اکثر ہوتا ہے ، [یا] امام تاخیر سے آیا مسجد بھری ہوئی ہے تو وہ گردن پھلانگ کر مصلی تک جائے گا اس پر کوئی گناہ نہیں، اسی طرح مؤذن اقامت کہنے کے لیے گردن پھلانگ کر جا سکتا ہے۔ اخیر میں یہ کہنا ہے کہ حدیث پر تو اس نے منہ مارا مگر فقہاے احناف نے جو فرمایا: لا یؤذن في المسجد، ویکرہ أن یؤذن في المسجد، لکراہۃ الأذان في المسجد، اور ’’المسنون ہو الثانی‘‘ کا کیا جواب؟ اس جاہل پر خود کئی وجہ سے توبہ فرض ہے ایک حدیث صحیح کو شاذ کہا، ایک حدیث صحیح کو رد کیا، لوگوں کو سنت پر عمل کرنے سےروکا، سنت کے خلاف بدعت کی تائید کی، سنت زندہ کرنے والے سے توبہ کا مطالبہ کیا۔ اذان ثانی کی بحث نزہۃ القاری شرح بخاری، جلد ثالث،ص:۳۲۸۔ لغایت،ص:۳۵۲ پر موجود ہے اسے دیکھ لیں وہی کافی ہوگی اور رسالے کا انتظار کریں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved