بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (۱) ابو داؤد شریف میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی ۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا تھا ۔ تفسیر الفتوحات الالہیہ میں ہے: ’’وعلي بالکوفۃ علی ذلک‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جب کوفہ تشریف لائے تو انھوں نے بھی اذان خطبہ مسجد کے دروازے پر دلوائی ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دی جائے اور مسجد کے اندر خطیب کے سر پر منبر کے متصل دینا سنت کے خلاف ’بدعت‘ ہے۔ ہمارے فقہا نے مطلقاً فرمایا: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ خلاصۃ الفتاوی قلمی، خزانۃ المفتیین ، فتح القدیر، البحر الرائق، عالمگیری، شرح نقایہ علامہ برجندی ، غنیہ میں ہے: والأذان إنما یکون في المئذنۃ أو خارج المسجد۔ اذان مینار ے پر دی جائے یا مسجد کے باہر۔ حتی کہ بہت سے فقہاے احناف نے اس کی تصریح فرمائی کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے۔ فتح القدیر خاص باب جمعہ بیان خطبہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ نظم امام زندویستی ، پھر قہستانی ،پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ یہ فقہ حنفی کی انتہائی معتمد مستند وہ کتابیں ہیں جن کو دیوبندی بھی مانتے ہیں۔ یہ حکم ہر اذان کے لیے عام اور مطلق ہے نہ اذان پنج گانہ کی اس میں تخصیص کی گئی ہے اور نہ اذان جمعہ کا استثنا، اس لیے اس میں اذان خطبہ بھی ضرور بالضرور داخل اور دوسری اذانوں کی طرح اذان خطبہ بھی مسجد کے اندر دینا ممنوع اور مکروہ ۔ اسی بنا پر مولانا عبد الحی لکھنوی نے عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا ہے: قولہ:’’بین یدیہ‘‘ أي مستقبل الإمام في المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني ۔ یعنی ’’بین یدیہ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ امام کے سامنے ہو یہ داخل مسجد اور خارج مسجد دونوں کو شامل۔ مسنون یہ ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہو ۔ اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ جو چیز سنت کے خلاف ہوگی وہ بدعت ہے۔ (مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی دیوبندیوں کے بھی مستند پیشوا ہیں۔) علاوہ ازیں اذان کا مقصد اعلام غائبین ہے یعنی جو لوگ مسجد میں حاضر نہیں انھیں یہ بتانا کہ نماز کا وقت ہو گیا ، جماعت ہونے والی ہے اور اذان خطبہ کا بھی مقصد اعلام غائبین ہی ہے ۔ بحر الرائق میں ہے: تکرارہ مشروع کما في أذان الجمعۃ؛ لأنہ لإعلام الغائبین فتکریرہ مفید لاحتمال عدم سماع البعض۔ یہی مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی اسی عمدۃ الرعایہ میں عبارت مذکورہ بالا کے پہلے متصل لکھا: وہذا الأذان لاطلاع الحاضرین و إحضار الغائبین عن المسجد۔ اور اگر یہ اذان خطیب کے متصل مسجد میں دی جائے تو اعلام غائبین نہ ہوگا، اس لیے اسے بھی مسجد کے باہر ہونا ضروری ہے البتہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے ہو۔ واللہ تعالی اعلم (۲) نمبر ایک کے جواب سے واضح ہو گیا کہ اذان خطبہ مسجد کے اندر دینا بدعت سیئہ ہے اس لیے کہ سنت کے خلاف ہے اور بدعت سیئہ کا ارتکاب ناجائز وگناہ۔ علاوہ ازیں فقہاے کرام نے اسے مطلقا مکروہ لکھا۔ عند الاطلاق کراہت سے متبادر کراہت تحریم، اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب بھی ناجائز وگناہ اس لیے مسجد کے اندر اذان خطبہ ناجائز وگناہ۔ واللہ تعالی اعلم (۳) یہ بات بھی کوئی پوچھنے کی ہے۔ علما پر واجب ہے کہ حکم شرعی عوام کو بتائیں۔ عوام خواہ مانیں یا نہ مانیں، علما کو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی شخص عوام کو خوش نہیں رکھ سکتا ہے ۔ عوام پر واجب ہے کہ مسائل شرعیہ میں علما کی اتباع کریں اور اس میں اپنی من مانی نہ کریں۔ یہ کبھی کبھی آدمی کو ایمان سے بھی محروم کردیتی ہے ، ارشاد ہے: ’’ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ ‘‘ اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد علما ہیں جیسا کہ علما نے تشریح کی ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۴) غلط رسم ورواج پر اڑا رہنا جاہلیت ہے، اور اڑے رہنے کا حکم اس کے مقابل صحیح حکم شریعت کی حیثیت پر ہے کبھی کفر ہوگا، کبھی گناہ کبیرہ، کبھی گناہ صغیرہ، کبھی مکروہ ، کبھی خلاف اولی۔ اتنی فرصت نہیں کہ پوری کتاب اس موضوع پر لکھ سکوں اسی لیے سوال میں اس طرح سے پہیلیاں نہیں بجھانا چاہیے جو صورت ہو اس کو متعین طور پر لکھنا چاہیے۔ اگر لوگ کسی امر مستحب کو ناجائز وگناہ کہنے لگیں تو ضرور اس پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے لیکن مستحب کو مستحب جانتے ہوئے اگر سستی کی وجہ سے اس پر عمل نہ کریں تو واجب نہ ہوگا۔ واللہ تعالی اعلم (۵) شرعی احکام میں اکثر واقل کا کوئی اعتبار نہیں اگر بفرض محال سارے کلمہ پڑھنے والے اور ساری دنیا کسی حکم شرعی کے خلاف ایسا کرے تو بھی حکم شرعی اپنی جگہ باقی رہے گا ۔ واللہ تعالی اعلم (۶) چوں کہ مستحب کے ترک پر گناہ نہیں اس لیے اگر کوئی شخص کسی وجہ سے یا بلا کسی وجہ کے کسی مستحب کو ترک کردے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ واللہ تعالی اعلم (۷) ایک مردہ سنت زندہ کرنے پر فرمایا گیا: من أحییٰ سنۃ من سنتي قد أمیتت بعدي فإن لہ أجر مثل أجورمن عمل بھا من غیر أن ینقص من أجورہم شيئا۔ اور فرمایا: من تمسک بسنتي عند فساد أمتی فلہ أجر مائۃ شہید۔ اور احیاے سنت ہر مسلمان پر بقدر وسعت وطاقت واجب ہے اور علما پر زیادہ ، علما کا کام ہی یہی ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۸) غیر عالم اگر سمجھ دار ہو ،باتیں صحیح یاد رکھتا ہو، دین دار اور خدا ترس ہو۔ اپنی طرف سے گڑھ کر مسائل نہ بیان کرتا ہو، صرف وہی بیان کرتا ہو جو اس نے کسی معتمد عالم کی کتاب میں پڑھا ہے یا کسی معتمد عالم سے سنا ہے تو اسے وعظ کی بھی اجازت ہے اور مسائل بتانے کی بھی ۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org