8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱)صبح صادق سے قبل جو اذان اور نماز ادا کی جائے گی کیا وہ ادا ہوگی؟ (۲) صبح صادق میں سحری کرنی چاہیے یا صبح کاذب میں اور صبح صادق وکاذب کسے کہتے ہیں؟ (۳) صبح کاذب میں سحری ختم کی گئی اور فورا ہی اذان بھی دے دی گئے اور ۱۰؍ ۱۵؍ منٹ بعد نماز بھی ادا کی گئی جب کہ صبح صادق ہونے میں ۲۰؍ منٹ باقی رہتا ہے ایسی اذان ونماز ہوئی یا نہیں؟ شریعت کا کیا حکم ہے؟ (۴) جن مسجدوں میں صبح صادق سے قبل اذان وجماعت ادا کی جاتی ہو کیا ان مسجدوں میں اذان ونماز دہرائی جائے گی یا نہیں؟ (۵) دوامی نقشہ اور ظہور الاوقات ان دونوں میں سے کون سا نقشہ ازروے شریعت صحیح ہے؟ غور وفکر کر کے جواب دیں۔

فتاویٰ #1429

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: ( ۱ و ۴) صبح صادق سے پہلے جو اذان کہی گئی وہ کالعدم ہے اور جو نماز پڑھی گئی وہ فجر کی نماز نہ ہوئی نفل ہوئی بالفرض کسی نے صبح صادق سے پہلے اذان فجر کہی تو ضروری ہے کہ وقت کے بعد دوبارہ اذان کہی جائے۔ تنویر الابصار میں ہے: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ۔ اس کے تحت شامی میں ہے: وکذا کلہ بالأولی۔ وقت سے پہلے جو نماز پڑھی گئی وہ قطعا نہ ہوئی اس لیے کہ دخول وقت نماز کے شرائط میں سے ہے اور جب شرط نہیں پائی جائے گی مشروط بھی نہیں پایا جائے گا۔ در مختار میں ہے: شرط انعقاد: کنیۃ وتحریمۃووقت۔ یہاں تک کہ علما نے تصریح فرمائی کہ اگر کسی نے سفر میں دو نمازوں کو جمع کیا اور کسی نماز کو وقت سے پہلے پڑھا مثلا عصر ظہر کے وقت میں پڑھا تو عصر کی نماز فاسد ہے۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: فإن جمع فسد لو قدم الفرض علی وقتہ۔ اور خود قرآن میں ارشاد ہے : اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۰۰۱۰۳ ۔ بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقررہ وقتوں میں۔ اس سے ثابت کہ مقررہ وقت سے پہلے پڑھی تو نماز نہ ہوئی۔ واللہ تعالی اعلم (۲ و ۳) صبح صادق طلوع ہونے کے بعد جو سحری کھائے گا اس کا روزہ نہ ہوگا۔ صبح کاذب کے وقت سحری کھا سکتے ہیں اس لیے کہ صبح صادق طلوع ہونے کے بعد روزے کا وقت شروع ہو جاتا ہے، علما نے یہاں تک لکھا کہ اگر کسی کے منہ میں لقمہ تھا کہ صبح صادق طلوع کر آئی پھر اس نے نگل لیا تو قضا بھی واجب ہے اور کفارہ بھی۔ اسی میں ہے: أو رمی اللقمۃ من فیہ عند ذکرہ أو طلوع الفجر ولو ابتلعہا إن قبل إخراجِہا کَفَّرَ۔ صبح صادق وہ سفیدی ہے جو افق میں چوڑائی میں پھیلی رہتی ہے۔ نیچے آسمان کے کنارے تک رہتی ہے۔ اور صبح کاذب وہ سفیدی ہے جو افق کے اوپر لمبی لمبی پھیلی ہوتی ہے اس کے نیچے افق میں اندھیرا ہوتا ہے۔ تنویر الابصار میں ہے : وقت الفجر من أول طلوع الفجر الثاني وہو البیاض المنتشر المستطیرلا المستطیل۔ ہدایہ میں ہے: الفجر الثاني وہو المعترض في الأفق ۔۔۔ ولا معتبر بالفجر الکاذب وہو البیاض الذي یبدو طولا ثم يُعقّبہ الظلام، ملخصا۔ اس کے حاشیہ میں ہے: تصریح بأن الفجر الأول بعد طلوعہ یغیب ویطلع الثاني بعد غیبوبتہ حيث قال: ثم يعقبہ الظلام ولیس کذلک عند المشاہدۃ فإنا نشاہد أنہ لا یغیب بل یبقی إلی أن یطلع الفجر الثاني من تحت الأفق المظلم الشبیہ بالخیط الأسود۔ واللہ تعالی اعلم (۵) میں نے پہلے ہی معذرت کر دی ہے کہ میں توقیت کا ماہر نہیں اس لیے تحقیقی طور پر میں کوئی راے قائم نہیں کر سکتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ دوامی نقشہ کے مرتب حکیم احمد حسن خاں کو میں نہیں جانتا طرز تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سنی نہیں وہابی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ البتہ ظہور الاوقات کے مرتب جناب حاجی ظہور احمد نعیمی سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں یہ بہت ماہر ثقہ معتمد توقیت داں ہیں اور ان پر اس سلسلے میں اکابر علماے اہل سنت کو اعتماد تھا۔ بریلی شریف میں حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ اپنے مدرسہ کے لیے انھیں سے اوقات کا استخراج کرا کے شائع فرماتے تھے۔ اس لیے ظہور الاوقات پر اعتماد کرنا ضروری ہے اور دوامی نقشہ کے مرتب اگر واقعی وہابی مذہب کے ہیں تو ان پر یوں بھی اعتماد نہیں کہ وہ غیر مذہب کے آدمی ہیں۔ ہمارا مذہب اور ان کا مذہب اور۔ اس لیے کسی سنی کو مذہبی معاملات میں وہابیوں پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved