22 December, 2024


دارالاِفتاء


زید پیری مریدی کے علاوہ مفتی اور شیخ الہند ہونے کا دعوی کرتا ہے اور کیمیاے سعادت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک فتوی دیا ہے کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا ہے حالاں کہ کتاب مذکورہ منگا کر ،ص:۸۴ پر دیکھا گیا تو امام غزالی علیہ الرحمہ نے صراحۃً لکھا ہے کہ اس وقت نماز مت پڑھو لیکن مفتی صاحب نے اپنی طرف سے اضافہ کر کے لکھ دیا کہ لیکن جمعہ کے دن پڑھو جمعہ اس سے بری ہے۔ نیز مشکات ،باب اوقات النہی فصل ثانی میں مروی ہے: قال أبو داؤد أبو الخلیل لم یلق أبو قتادۃ۔ نیز امام صاحب علیہ الرحمہ کی دوسری تصنیف مکاشفۃ القلوب،ص:۶۱۰ پر عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے اس پر عمل نہیں ہے۔ مرأۃ المناجیح میں مفتی احمد یار خاں علیہ الرحمہ نے بھی کچھ اشارہ کیا ہے۔ آیا مسلک حنفی میں روز جمعہ زوال ہوتا ہے؟ اگر ہے تو شیخ الہند صاحب نے جو اپنی طرف سے بڑھا کر کہ ’’لیکن جمعہ کے دن پڑھو جمعہ اس سے بری ہے ‘‘ فتوی دے کر قوم کے اندر انتشار پیدا کر دیا ہے ۔ شخص مذکور مفتی بن سکتا ہے ؟اور شریعت سے اس قدر بے خبر پیر سے بیعت جائز ہے؟ نیز جناب کا یہ بھی فرمان ہے کہ حدیث کا جواب حدیث سے چاہیے ورنہ سب کچھ غلط۔ کیا ایک حنفی مفتی اور پیر کہلانے والے شخص کے لیے یہ قول قیاس سے انکار نہیں ہے۔ اور علماے کرام وائمۂ اربعہ فرماتے ہیں کہ اصول شرع چار ہیں تو مذکورہ قول کے تحت ضروریات دین کا منکر ہوئے کہ نہیں اگر ہوئے تو اس پر کیا حکم ہے؟ دوسری طرف مفتی صاحب شریعت مطہرہ کا مذاق اڑاتے ہوئے رمضان المبارک میں دوزخ بند رہنے کا انکار کرتے ہیں اور چڑھاتے ہوئے مولوی کلیم الدین صاحب کو لکھتے ہیں کہ پورے ماہ رمضان کے دوزخی اور ہزاروں برس والے دوزخی اس بند دوزخ کی حالت میں ادوارہ اسٹیشن لائن پر کلیم صاحب پاتے ہیں، آیا حدیث مشہورہ کا انکار کر کے ضروریات دین کا منکر ہو کر خارج از اسلام ہوئے یا نہیں؟ اور جو حضرات مذکورہ تینوں اقوال کے بے جا حمایت میں اول فول بکتے ہوئے لوگوں کو پریشان کریں ان کے لیے کیا حکم ہے بلا کسی رعایت کے مسئلہ حقہ کا واضح بیان فرما کر احسان فرمائیں، ممنون ومشکور ہوں گے۔

فتاویٰ #1426

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: جمعہ کے دن بھی زوال کے وقت ہر نماز ممنوع ہے جیسا کہ متعدد صحیح حدیثوں میں مروی ہے کہ زوال کے وقت نماز نہ پڑھو اور یہی مذہب حنفی میں مختار ومفتی بہ ہے۔ ہدایہ میں ہے: لا تجوز الصلاۃ عند طلوع الشمس ولا عند قیامہا في الظہیرۃ ولا عند غروبہا۔ سورج نکلتے وقت اور ٹھیک دوپہر کو اور سورج ڈوبتے وقت نماز جائز نہیں۔ عالم گیری میں ہے: ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند احمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک۔ (ان جزئیات کی اصل وہ احادیث صحیحہ ہیں جن میں تینوں اوقات میں نماز پڑھنے سے صراحۃ ممانعت فرمائی گئی ہے اور روز جمعہ کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، لہذا نصف النہار کے وقت نماز کی ممانعت کا یہ حکم روز جمعہ کو بھی عام ہو گا۔ ن م) ہاں ہمارے ائمہ میں حضرت امام ابو یوسف نے جمعہ کے دن زوال کا استثنا فرمایا، لیکن وہ قول مرجوح ہے ۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب یہی ہے کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نماز مکروہ ہے۔ اور فتوی مطلقا امام کے قول پر ہوتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۲) غیر مجتہد کو یہ جائز نہیں کہ براہ راست احادیث سے مسائل کا استخراج کرے ،غیر مجتہد پر واجب ہے کہ وہ کسی مجتہد کی تقلید کرے۔ اس شخص پر حیرت ہے کہ وہ ایسی باتیں کرتا ہے ۔ کیمیاے سعادت حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے جو مسلکاً شافعی تھے؛ اس لیے حنفی کو یہ جائز نہیں کہ احناف کے خلاف جو مسائل اس میں مذکور ہیں ان پر فتوی دے، یا ان پر عمل کرے اگر یہ شخص قیاس مجتہدین کا منکر ہے تو یقینا گمراہ بد دین ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۳) یہ حدیث کہ رمضان کے ایام میں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں متواتریا مشہور نہیں اور نہ یہ ضروریات دین سے ہے۔ اس لیے اس کا انکار کفر نہیں البتہ گمراہی ضرور ہے اس لیے کہ حدیث صحیح ہے اور حدیث صحیح کا انکار اگرچہ وہ خبر واحد ہو یقینا گمراہی ہے اور اس کا تمسخر مستلزم کفر ہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved