بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: جن بلاد میں سال کے کچھ دنوں میں شفق ڈوبتے ہی صبح صادق طلوع کر آتی ہے اور عشا کا وقت متحقق نہیں ہوتا ان بلاد کے باشندوں پر ان دنوں کی نماز عشا کی قضا مذہب مختار پر واجب ہے اسی طرح وتر کی بھی، سنن ونوافل کی چوں کہ قضا نہیں اس لیے اگر کوئی پڑھے گا بھی تو وقتیہ سنن ونوافل نہ ہوں گے بلکہ نفل محض ہوں گے۔ نماز تراویح چوں کہ سنت مؤکدہ ہے اس لیے اس کی بھی قضا نہیں اگر کوئی وقت گزرنے کے بعد بہ نیت قضا تراویح پڑھے گا تو وہ نماز تراویح نہ ہوگی محض نفل ہوگی۔ اگر بغیر تداعی کے (باجماعت) پڑھے گا تو کوئی حرج نہیں اور اگر تداعی کے ساتھ (با جماعت) پڑھے گا تو مکروہ ہے ۔ تداعی کے معنی یہ ہیں کہ ایسی جماعت کے ساتھ پڑھے جس میں امام کے علاوہ چار (یازیادہ) مقتدی ہوں اور اگر مقتدی تین یا اس سے کم ہوں تو کوئی کراہت نہیں، در مختار میں ہے: (ولا تقضى إذا فاتت أصلا) ولا وحده في الأصح (فإن قضاها كانت نفلا مستحبا وليس بتراويح) كسنة مغرب وعشاء۔ إلخ۔ اس کے تحت شامی میں ہے: أَيْ حُكْمُ التَّرَاوِيحِ فِي أَنَّهَا لَا تُقْضَى إذَا فَاتَتْ كَحُكْمِ بَقِيَّةِ رَوَاتِبِ اللَّيْلِ لِأَنَّهَا مِنْهَا لِأَنَّ الْقَضَاءَ مِنْ خَوَاصِّ الْفَرْضِ وَسُنَّةِ الْفَجْرِ بِشَرْطِهَا۔ إلخ۔ نیز در مختار میں ہے: لَا التَّطَوُّعَ بِجَمَاعَةٍ خَارِجَ رَمَضَانَ أَيْ يُكْرَهُ ذَلِكَ لو عَلَى السَبِيلِ التَّدَاعِي بِأَنْ يَقْتَدِيَ أَرْبَعَةٌ بِوَاحِدٍ. شامی میں ہے: وَهُوَ كَالصَّرِيحِ فِي أَنَّهَا كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ. ان سب کا خلاصہ یہ نکلا کہ آپ کے یہاں جن دنوں میں عشا کا وقت نہیں ہوتا ان دنوں میں تراویح ایسی جماعت کے ساتھ پڑھنی جس میں چار یا چار سے زائد مقتدی ہوں مکروہ تنزیہی ہے۔ اس خادم کے نزدیک فتنہ اور شورش ختم کرنے اور عوام کے دین کی صیانت کے لیے مکروہ تنزیہی پر عمل کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ نے شامی سے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا جو قول نقل کیا ہے اس پر خود علامہ شامی نے یہ اعتراض کیا ہے: وَأَيْضًا لَوْ فُرِضَ أَنَّ فَجْرَهُمْ يَطْلُعُ بِقَدْرِ مَا يَغِيبُ الشَّفَقُ فِي أَقْرَبِ الْبِلَادِ إلَيْهِمْ لَزِمَ اتِّحَادُ وَقْتَيْ الْعِشَاءِ وَالصُّبْحِ فِي حَقِّهِمْ ، أَوْ أَنَّ الصُّبْحَ لَا يَدْخُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ إنْ قُلْنَا إنَّ الْوَقْتَ لِلْعِشَاءِ فَقَطْ وَلَزِمَ أَنْ تَكُونَ الْعِشَاءُ نَهَارِيَّةً لَا يَدْخُلُ وَقْتُهَا إلَّا بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، وَقَدْ يُؤَدِّي أَيْضًا إلَى أَنَّ الصُّبْحَ إنَّمَا يَدْخُلُ وَقْتُهُ بَعْدَ طُلُوعِ شَمْسِهِمْ وَكُلُّ ذَلِكَ لَا يُعْقَلُ۔ إلخ. اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ بات متحقق ہے کہ طلوع صبح صادق سے فجر کا وقت متحقق ہو جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ، اب اقرب بلاد میں جو عشا کا وقت ہے اس کو یہاں کے لیے عشا کا وقت مانا جائے تو : • پہلی خرابی یہ لازم آئے گی کہ ایک ہی وقت عشا کی نماز کا بھی ہے اور فجر کا بھی ہے۔ • اور اگر یہ کہیں کہ اتنی دیر تک فجر کا وقت نہیں ہوگا صرف عشا کا ہوگا تو بھی یہ لازم آئے گا کہ طلوع فجر سے فجر کا وقت نہ ہو ۔ • تیسری خرابی یہ لازم آئے گی کہ وہاں عشا کی نماز رات کی نمازوں میں سے نہ ہو بلکہ دن کی نمازوں میں سے ہو جائے اس لیے کہ صبح صادق کے طلوع سے نہار شرعی موجود ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ ہوگا کہ فجر کی نماز اپنے وقت میں پڑھنی جائز نہ ہو اور وقت نکلنے کے بعد پڑھنی لازم ہو یہ ’’فر من المطر وقام عند المیزاب‘‘ بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے کھڑا ہو گیا ‘‘ کے مصداق ہو گا کہ عشا کی نماز کو ادا بنانے کے لیے فجر قضا کر بیٹھے۔ أقول: اور آپ کے اس خصوص میں یہ دشواری پیدا ہو سکتی ہے کہ اقرب بلاد میں جو عشا کا وقت ہو یہ کیا ضروری ہے کہ وہ اتنا ہو کہ اس میں آپ تراویح پڑھ سکیں ، اپنا مذہب بھی چھوڑا اور کام بھی نہیں بنا۔ اس سے کیا حاصل ، اس لیے یہ خادم بھی اس کو پسند نہیں کرتا کہ امام شافعی کے اس مسلک پر عمل کیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org