
بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: فقہا جہاں یہ تصریح فرماتے ہیں وہیں یہ بھی تصریح فرماتے ہیں کہ صرف پانی سے استنجا کر لینے میں کوئی حرج نہیں اور ’’تنجیس الطاہر حرام ‘‘ یہاں پیش کرنا بے محل ہے، اور آپ کی تقریر کے بموجب ڈھیلے اور پتھر پر بھی صادق ۔ آخر جن ڈھیلوں سے استنجا کرے گا وہ پاک ہی تو ہوں گے اور استنجا کرنے کے بعد نا پاک ہو جائیں گے پھر اس سے کہاں کہاں بچیے گا۔ کپڑے میں پیشاب لگا اسے بغیر ہاتھ لگائے کیسے پاک کیا جائے ، پھر فقہا تصریح فرماتے ہیں کہ اگر نجاست مخرج سے قدر درہم سے زائد متجاوز ہو تو صرف ڈھیلوں سے استنجا کافی نہ ہوگا ، پانی سے استنجا کرنا واجب ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ مخرج سے باہر کی یہ جگہ ناپاک ہی رہی ڈھیلوں سے استنجا کرنے کے بعد بھی۔ اب پھر یہاں ہاتھ لگا اور بقول آپ کے تنجیس طاہر ہوا۔ کیا پاک زمین پر پاخانہ پیشاب کرنا حرام ہے، وہاں بھی تو تنجیس طاہر لازم آئے گی جو جواب ان باتوں کا آپ دیں گے وہی جواب ، صرف پانی سے استنجا کرنے والے آپ کو دیں گے۔ فقہا کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے :کہ بلا ضرورت کسی پاک چیز کو ناپاک کرنا منع ہے اور جہاں ناپاک چیز کو پاک کرنے کی ضرورت ہو خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ نجاست سے طہارت اس پر موقوف ہو تو قطعاً منع نہیں۔ مثلاپاک پانی میں نجاست ڈالنا حرام ہے مگر بدن یا کپڑے کی نجاست دور کرنے کے لیے پانی کا استعمال جائز ہے حالاں کہ جو پاک پانی نجاست کی جگہ پڑے گا ابتداءً وہ ضرور ناپاک ہوگا۔ پھر جہاں مقصود پاک کو ناپاک کرنا نہیں بلکہ تھوڑی دیر کے لیے طہارت حاصل کرنے کی غرض سے نجاست سے آلودگی ہوتی ہے پھر طہارت ہو جاتی ہے وہاں تنجیس الطاہر حرام کا اطلاق نہ ہوگا۔ نیز اس ’’تنجیس الطاہر حرام‘‘ کا محمل یہ بھی ہے کہ مقصود یہ ہو یا بلا قصد یہ بات حاصل ہو جائے کہ وہ چیز ناپاک ہو جائے اور قابل انتفاع نہ رہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org