امام احمد رضا کی عالمی شہرت و مقبولیت اور اس کے اسباب ____ آپ کا تعارف حدائق بخشش میں منحصر نہیں _________ الجواب: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالٰی بے مثال فقیہ، زبردست محدث، علم الجفر جیسے علم اسرار الہی کے شناسا، عاشق رسول، مجدد اسلام تھے، ساتھ ہی دوسرے اوصاف و کمالات کے جامع بھی، دنیا کے ممالک میں جہاں جہاں اردو زبان بولی جاتی ہے ان تمام ممالک میں آپ کی مقبولیت اور شہرت کنزالایمان ترجمہ قرآن اور فتاوی رضویہ اور حدائق بخشش کی وجہ سے زیادہ ہوئی، امام موصوف کی دوسری کتابوں کی تاثیرات بھی مقبولیت کا سبب بنیں مگر یہ تینوں کتابیں بہت زیادہ موثر رہیں۔ کنزالایمان:یہ اردو زبان میں قرآن مقدس کا بہت ہی صحیح، ایمان افروز ترجمہ ہے جو دوسرے ترجموں سے ممتاز اور فائق ہے، جو خوبیاں اس ترجمے میں پائی جاتیں ہیں وہ دوسرے ترجموں میں نہیں ہیں، اس موضوع پر علمائے کرام کے کئی مقالات شائع ہو چکے ہیں۔جیسے محاسن کنزالایمان، کنزالایمان کا تقابلی مطالعہ وغیرہ۔ فتاوی رضویہ: یہ اردو اور عربی اور فارسی زبان کے فتاوی کا عظیم الشان مجموعہ ہے جو بلاشبہ آج کے دور جدید میں بھی فقہ حنفی کا موسوعۃ الفتاوی ہے یعنی فتاوی کا انسائیکلوپیڈیا۔ تحقیقات اور تنقیحات کا بے مثل خزانہ ہونے کے ساتھ کتاب و سنت کا عظیم مجموعہ ہے۔ حدائق بخشش کی بے پناہ اثر آفرینی کی وجہ سے جامع ازہر، مصر کے ایک استاذ شیخ حازم محفوظ نے بساتین الغفران کے نام سے عربی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جو عالم عرب میں شائع و مقبول ہوا۔ اس کے ایک ایک شعر سے عشق رسولﷺ کی خوشبو پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، حدائق بخشش میں آپ کا سلام:"مصطفے جان رحمت پہ لاکھوں سلام" تو اس قدر مقبول عام ہوا کہ اہل علم کا بیان ہے کہ آذان کے بعد سب سے زیادہ اس وقت بلند آواز سے "سلام رضا" پڑھا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی نعت گوئی میں آپ کی نظیر نظر نہیں آتی، امام موصوف کی نعت گوئی میں صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت انصاری کا فیضان نظر آتا ہے جس میں کتاب و سنت کے چمکتے ہوئے موتی صاف جھلکتے ہیں ،وہ خود فرماتے ہیں: رہبر کی رہ نعت میں گر حاجت ہو، نقش قدم حضرت حساں بس ہے۔ نیز عرض کرتے ہیں: قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی، یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ۔ جن علما کو جس علم و فن سے شغف زیادہ ہوتا ہے وہ اس علم و فن کی مناسبت سے امام موصوف کا ذکر جمیل کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کہ ان کا ذکر جمیل صرف نعت گو ہونے کی حیثیت سے کیا جاتا ہو، بلکہ مختلف حیثیتوں سے علما نے آپ کا تعارف کرایا ہے اگر کچھ علما حدائق بخشش کا ذکر زیادہ کرتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے اشعار کتاب و سنت سے ماخوذ ہوتے ہیں اور کلام، معنوی حیثیت سے اس قدر بلند ہوتا ہے کہ اس سے بلند اور اونچے کلام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا: زہے عزت و اعتلاے محمد، کہ ہے عرش حق زیر پایے محمد فلک فرش ان کا، مکاں عرش ان کا ملک خادمان سراے محمد خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم، خدا چاہتا ہے رضاے محمد۔ اسے سمجھنا اور سمجھانا آسان ہے اس لیے کبھی مخاطب کے فہم و ادراک کو سامنے رکھ کر بھی کچھ آسان باتیں بیان کر دی جاتی ہیں اور یہ امر بجاے خود مسلّم ہے کہ وہ اس حیثیت سے بھی بہت ممتاز ہیں۔ وہ تحدیث نعمت کے طور پر خود نغمہ زن ہیں: ملک سخن کے شاہی تم کو رضا مسلم، جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں۔ پی۔ ایچ۔ ڈی اور ایم فل: امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی شخصیت پر بڑی کثرت کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں میں پی۔ایچ۔ڈی۔ ہوئی ہے اور ایم فل کے مقالات لکھے گئے ہیں، طبقہ علما میں میری دانست میں اس کثرت کے ساتھ کسی عالم پر پی۔ایچ۔ڈی۔ نہیں ہوئی اور نہ ہی ایم فل ہوا یہاں تک کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو علماے ہند میں بین الاقوامی سطح پر بہت شہرت حاصل ہے مگر ان کی شخصیت پر اتنی ایم فل اور پی۔ایچ۔ڈی نہیں ہو سکی ہے جتنی امام احمد رضا علیہ الرحمہ پر ہوئی ہے۔ اہم شخصیات کا تاثر: بڑی اہم شخصیات نے آپ کے بارے میں گراں قدر تاثرات دیے اور خراج عقیدت پیش کیے جن کی اشاعت سے دنیا کی نگاہیں کھل گئیں اس موضوع پر علامہ یٰسـین اختر مصباحی دام ظلہ کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ (1) امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں۔ (2) امام احمد رضا جدید علماے عرب کی نظر میں۔ اور خود امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی حیات میں آپ کی مقبولیت اور شہرت کا سبب آپ کی متعدد تحقیقات بنیں جن کا ذکر ہم کریں گے۔ ⚫ ▪️المیزان کا امام احمد رضا نمبر ▪️جہان فتاوی رضویہ (3 جلدیں) ▪️انوار امام احمد رضا، وغیرہ کتابوں کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ علماے اہل سنت نے امام اہل سنت کا تعارف مختلف حیثیتوں سے کرایا ہے اور اس بارے میں اہم مقالات تحریر فرمائے ہیں، راقم الحروف نے بھی کچھ حیثیتوں سے ان کے تعارف کی کوشش کی ہے، جو یہ ہیں: (1) امام احمد رضا اور فقہی ضوابط کی تدوین۔ یہ ایک مبسوط مقالہ ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا مقالہ ہے اور اس حیثیت سے آپ علماے محققین کے کارناموں کا احاطہ کر لیجیے کوئی امام ممدوح کا ثانی نظر نہیں آئے گا۔ (2) امام احمد رضا ایک بے مثال محقق۔ یہ ایک خطاب ہے جس میں شواہد کے ذریعہ یہ عیاں کیا گیا ہے کہ میدان تحقیق فقہ میں آپ بے مثال ہیں۔ (3) امام احمد رضا کا ذوق عبادت، مکتوبات کے آئینے میں۔ اس مقالہ میں آپ کی عبادات کے نمونے پیش کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان سے عہد صحابہ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ (4) فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت فتاوی رضویہ کی روشنی میں۔ امام احمد رضا نے اپنے فتاوی میں بے شمار مقامات پر شرعی اصولوں کی روشنی میں حالات زمانہ کی رعایت فرما کر امت کو آسانی کی شاہ راہ عطا فرمائی ہے جو فقہاے کرام اور مفتیان عظام کے لیے مشعل راہ ہے اس کتاب میں اس کے پچاس سے زائد نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ (5) فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول۔ مجموعی طور پر یہ ساتوں اصول، فتاوی رضویہ میں یکجا بیان کیے گئے ہیں جن کی تفریعات فتاوی رضویہ میں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں اس کتاب میں کچھ فقہی وضاحتوں اور کتاب و سنت کی شہادتوں کے ساتھ انھی حقائق کا نظارہ کرایا گیا ہے یہ کتاب 344 صفحات پر مشتمل ہے۔ (6) امام احمد رضا اور جدید فقہی مسائل۔ (7) امام احمد رضا پر اعتراضات: ایک تحقیقی جائزہ۔ ان مقالات کے مشمولات نام سے ظاہر ہیں۔ علم حدیث میں آپ کا مقام کتنا بلند ہے اس کا اندازہ کتاب جامع الاحادیث سے لگایا جاسکتا ہے جس میں تصانیف رضا سے احادیث شریفہ کو جمع کیا گیا ہے، یہ وہ احادیث ہیں جن سے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے مسلک اہل سنت کی تقویت کے لیے استدلال کیا ہے، مسائل کثیرہ کے لیے حسن استنباط اور ندرت استخراج کے نمونے پیش کیے ہیں۔ آپ کی ان تحقیقات اور نادر کارناموں کی شہرت عالم میں آہستہ آہستہ 1300ھ کے آغاز تک پھیل چکی تھی اور دنیا آپ کی دینی خدمات کی عطر بیزیوں سے فیض یاب ہو رہی تھی۔ آفاق میں پھیلے گی کیونکر نہ مہک تیری، گھر،گھر لیے پھرتی ہے پیغام، صبا تیرا۔ ⚫ امام ممدوح کی عالمی مقبولیت و شہرت کا سبب آپ کی حیات میں ان کی یہ کتابیں ہیں۔ (1) فتاوی الحرمین لرجف ندوۃ المین۔ یہ کتاب فصیح عربی زبان میں 28 سوالات و جوابات پر مشتمل ہے جس کی تصنیف بیس گھنٹے سے کم میں مکمل ہوئی اور حج کے موقع سے بعض حجاج کے ذریعے 1316ھ میں حرمین شریفین تصدیقات کے لیے بھیجی گئی، اسی وقت سے وہاں کے علما کے درمیان آپ اچھی طرح متعارف ہو چکے تھے ان حضرات نے کتاب کا مطالعہ کرکے اس پر زبردست تقریظات لکھیں۔ (2) پھر کوئی سات سال بعد 1323ھ میں حج کے لیے امام احمد رضا حاضر ہوئے تو آپ نے اعلم علماے مکہ حضرت مولانا شیخ صالح کمال سابق قاضی مکہ و مفتی حنفیہ کے سامنے علم غیب کے موضوع پر دو گھنٹے تک عربی زبان میں تقریر کی آپ نے آیات و احادیث اور اقوال ائمہ سے رسول اللہ ﷺ کا علم غیب ثابت کیا اور مخالفین جو شبہات پیش کرتے ہیں ان کا تشفی بخش جواب دیا جس سے حضرت شیخ صالح بے پناہ متاثر ہوئے اور اس بارے میں اپنے ایک فتوے سے رجوع کر لیا۔ اس کی تفصیل ملفوظات ح:دوم، ص: 10،9 پر ہے۔ (3) الدولة المکیة بالمادة الغیبیة 25؍ ذی الحجہ 1323ھ/1906ء کو بعد نماز عصر حضرت شیخ صالح کمال رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے پانچ سوالات پر مشتمل ایک استفتا دیا اور فرمایا کہ یہ سوال وہابیوں نے حضرت شریف مکہ کے ذریعے پیش کیے ہیں آپ سے جواب مقصود ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ نے بخار کی حالت میں دو روز میں فصیح و بلیغ عربی زبان میں ان کے جوابات مکمل فرمائے ساتھ ہی علوم خمسہ کی بحث بھی دلائل کے ساتھ رقم فرما دی۔اس طرح یہ جوابات ایک ضخیم کتاب کی شکل میں سامنے آئے، اسی کتاب کا نام الدولة المکیة ہے۔ یہ کتاب شریف مکہ کے دربار میں نصف شب تک سنائی گئی، شریف مکہ نے کتاب کے دلائل قاہرہ سن کر بآواز بلند فرمایا: اللہ یعطی و ھولٓاء یمنعون اللہ تو اپنے حبیبﷺ کو علم غیب عطا فرماتا ہے اور یہ وہابیہ منع کرتے ہیں۔ پورے مکہ معظمہ میں کتاب کا شہرہ ہوا اور مخالفین پر اوس پڑ گئی اس کتاب پر حرمین شریفین کے علماے کرام نے دھوم دھام سے تقریظات لکھیں۔ (4) کفل الفقیه الفاھم فی احکام قرطاس الدراھم۔ حضرت مولانا جمال بن عبد اللہ بن عمر مکی رحمتہ اللہ تعالی علیہ جس زمانے میں مفتی حنفیہ کے منصب پر فائز تھے ان سے کاغذ کے نوٹ کے بارے میں سوال ہوا تھا جس کے "جواب میں انھوں نے یہ لکھا تھا کہ "علم علما کی گردنوں میں امانت ہے مجھے اس کے جزئیے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔" جب اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا علمی شہرہ ہوا تو حرم شریف کے دو اکابر علما نے اس بارے میں آپ سے 12 سوالات دریافت کئے اور آپ نے قلم برداشتہ عربی زبان میں ان کے جوابات تحریر فرمائے یہ جوابات ایک مبسوط کتاب ہو گئے انھی کے مجموعے کا نام کفل الفقیه،الفاھم ہے، اس کتاب نے عالم اسلام کو بہت متاثر کیا کیوں کہ یہ سوالات پورے عالم اسلام میں الگ الگ گردش کر رہے تھے مگر علما ان کے جواب سے خاموش تھے۔ (5) حسام الحرمین، مجدد اسلام امام احمد رضا یہ کتاب مرتب کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور تقریظات کے لیے حرمین شریفین کے علما کی خدمت میں اسے پیش کیا اس پر علما نے عالی شان تقریظات لکھیں اور اس کتاب کا بے پناہ شہرہ ہوا۔ حج کے موقع سے حرمین شریفین میں تمام عالم اسلام کے علما و فقہا جمع ہوتے ہیں، یہ کتابیں ان حضرات تک بھی پہنچیں اور ان کے واسطے سے عالم اسلام میں پھیل گئیں۔ مہک اٹھا اسی کوچے کی صورت اپنا صحرا بھی، کہاں کھولی ہیں زلفیں یار نے خوشبو کہاں تک ہے۔ یہ معلومات ملفوظات، ح:دوم، ص: 8 تا 40 سے لی گئیں ہیں اس طرح امام احمد رضا ایک مجدد اسلام اور فقیہ فقید المثال کی حیثیت سے افق عالم پر درخشاں نظر آنے لگے اور چار دانگ عالم میں آپ کی بے مثال خدمت دینی اور عظمت و تفقہ کا سکہ بیٹھ گیا۔ (6) آپ کی اور آپ کی کتابوں کی بے پناہ مقبولیت اور شہرت کا واقعی سبب آپ کا خلوص اور عشق رسول ہے اگر آپ کے اندر یہ خلوص اور عشق رسول نہ ہوتا تو اتنی بڑی مقبولیت نہیں ملتی آپ خود فرماتے ہیں: جان ہے عشق مصطفے روز فزوں کرے خدا، جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھاۓ کیوں۔ واللہ تعالی اعلم۔ املاہ محمد نظام الدین رضوی شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org