8 September, 2024


دارالاِفتاء


حضرت امام حسین کے نام کے ساتھ’’ علیہ السلام‘‘ کہنا کیسا ہے؟ زید کہتا ہے کہ علیہ السلام انبیا اور ملائکہ کے ساتھ خاص ہے ، عمرو اس پر شبہ کرتا ہے کہ حضرت شاہ محدث عبدالعزیز دہلوی ﷫ نے کے بجائے متعدد مقامات پر استعمال کیا ہے ۔جواب بحوالہ کتب عنایت فرمائیں ۔

فتاویٰ #1193

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: سلام دو قسم پر ہے ایک سلام بمعنی تحیۃ واِکرام، یہ ہر مسلمان کے لیے عام ہے لیکن اس کا استعمال بالمشافہ بصیغہ خطاب ہوتا ہے یا بواسطہ نامہ وغیرہ۔ دوسرا سلام بمعنی دعاے طلبِ رحمت بمعنی صلوۃ ، اس کا استعمال بصیغہ غائب بھی ہوتا ہے، مثلا حضرت موسی ۔ حضرت عیسی ۔ اس لیے سلام بصیغہ غائب صلوۃ کے حکم میں ہے۔ جس طرح صلوۃ استقلالاً انبیاو ملائکہ کے ساتھ خاص ہے، بھی خاص ہے، تبعاً ان کے غیر پر جائز ہے ۔ رد المحتار میں ہے: و اما السلام فنقل اللقانی فی شرح جوہرۃ التوحیدعن الامام الجوینی انہ فی معنی الصلوۃ، فلایستعمل فی الغائب و لایفرد بہ غیر الانبیاء، فلایقال : عَلِیٌّ علیہ السلام. وسواء فی ھذا الاحیاء والاموات ، الا فی الحاضر فیقال السلام او سلام علیک او علیکم و ھذا مجمع علیہ۔ھ اقول: و من الحاضر السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین ، و الظاہر ان العلۃ فی منع السلام ماقالہ النووی فی علۃ منع الصلوۃ ان ذلک شعار اہل البدع ، و لان ذلک مخصوص فی لسان السلف بالانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ، کما ان قولنا عزَّ و جل مخصوص باللہ تعالیٰ ۔ لہٰذا زید کا قول صحیح ہے ۔ عمرو کو باخبر ہونا چاہیے جب اس کی کراہت پر فقہ کا جزئیہ موجود، کتب فقہ میں اختصاص مذکور تو حضرت خاتم المحدثین مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ﷫ جیسی محتاط شخصیت سے اس کے خلاف عمل کیوں کر متصور ہوسکتا ہے۔ یہ کاتبوں کی تحریف ہے حضرت موصوف کی تصنیفات نقل در نقل ہوتی رہیں ، مختلف مطابع میں طبع ہوتی رہیں کاتب اپنی عادت کے مطابق لکھتے گئے جیسے علیہ الصلوۃ والسلام کے بجاے ”ع۔م۔“ بہت سی جگہ لکھا ہے۔ حضرت موصوف کی کتاب تفسیر فتح العزیز مطبع لاہور، مطبوعہ ۱۲۷۷ھ میں صرف سورہ قلم کے شان نزول میں نبی کریم ﷺ کے اسم پاک یا لفظ آں حضرت کے بعد بجاے علیہ الصلوۃ والسلام کے چودہ جگہ ”ع۔م۔ “ لکھا ہے۔ ما انت بنعمۃ ربک بمجنون کی تفسیر میں بجاے علیہ الصلوۃ والسلام کے تیئیس جگہ ۔”ع۔م۔“ ہی لکھا ہے ، حالاں کہ یہ رمز و اختصار خواہ بصورت ”ع۔م۔“ ہو یا بصورت ”صلم“ ہو ، ناجائز ہے ، سخت مکروہ و حرام ہے ، فتاویٰ تاتار خانیہ میں اس کو تخفیف شان نبوت بتایا۔ طحطاوی علی الدر المختار میں ہے: و یکرہ الرمز بالصلوٰۃ والترضّی بالکتابۃ بہ بل یکتب ذلک کلہ بکمالہ ۔ لہٰذا حضرت ممدوح علیہ الرحمہ سے یہ رمز و اختصار ہرگز متصور نہیں بلکہ یہ کاتبوں کی تحریف ہے ، یہ استدلال ہر گز نہیں ہوسکتا کہ حضرت شاہ عبد العزیز ﷫ کی کتاب تفسیر عزیزی میں چوں کہ بہت سی جگہ بجاے ﷺکے۔ع۔م۔ لکھا ہے لہذا بجائے ﷺ۔ع۔م۔لکھنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضرت موصوف کی کتاب میں انبیاء و ملائکہ کے علاوہ کے لیے سے بھی استدلال نہیں ہوسکتا ہے جب کہ فقہا کی تصریح موجود ہے، فقہ کا جزیہ موجود ہے، تو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved