8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱).زید و عمرو دونوں حقیقی برادر صاحبِ نصاب ہیں ۔ دونوں کے بیوی بچے بھی ہیں ۔ کاروبار، تجارت، کھانا ، پینا، مکان وغیرہ سب شرکت میں ہے اور ایامِ قربانی میں دونوں صرف ایک بکرا قربانی کرتے ہیں ، اس پر بھی مختلف ناموں سے۔ کسی سال زید کے نام اور کسی سال عمرو کے نام، کسی سال بیوی کے نام ، کسی سال بچے کے نام۔ آیا اس طرح قربانی کرنا کیسا ہے؟ (۲).چرم قربانی جو لوگ مدارسِ دینیہ میں دیتے ہیں ، اسے فروخت کر کے قیمت مدرس کی تنخواہ میں دے سکتے ہیں یا نہیں ۔ اگر دے سکتے ہیں تو صرف غریب طلبہ ہی کے مصرف میں لائیں یا مدرسہ کی تعمیر وغیرہ میں بھی لگا سکتے ہیں ۔ (۳).ہمارے قصبے میں بلکہ قرب و جوار کے دیہات میں یہ رواج عام ہے کہ قربانی کے جانور میں جو چربی نکلتی ہے اسے گرم کر کے اس میں سے تیل نکال کر رکھ لیتے ہیں اور ماہ دو ماہ تک اپنے صرف میں لاتے ہیں ، بعض لوگ چراغ میں جلاتے ہیں ، بعض لوگ اس میں روٹی پکوا کر کھاتے ہیں ، بعض لوگ دوا وغیرہ کے کام میں لاتے ہیں ، ایسا کرنا کیساہے؟ (۴).جس شخص کو تلاش کرنے پر بھی قربانی کا جانور نہ ملا، وہ ایامِ قربانی گزر جانے کے بعد جو روپیہ جانور خریدنے کی نیت سے رکھا تھا اس روپیہ کو مسجد کی مرمت میں لگا سکتا ہے یا نہیں ؟

فتاویٰ #1185

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: (۱).زید و عمرو کا مال اگر اتنا ہے کہ ہر ایک کا حصہ ساڑھے باون تولےچاندی یا اس سے زائد ہے تو دونوں پر قربانی واجب ہے۔ ہر سال ہر ایک کو اپنے نام سے کم از کم ایک بکری یا بھینس کا ساتواں حصہ قربان کرنا واجب ہے۔اور اگر اتنا مال ہے کہ ہر ایک کا حصہ ساڑھے باون تولے چاندی سے کم ہے تو کسی پر قربانی واجب نہیں ۔ اگر کریں تو ثواب ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم (۲).چرم قربانی کی قیمت طلبہ پر خرچ کر سکتے ہیں ، دینی مدرسہ کی تعمیر میں بھی صرف کر سکتے ہیں ۔ وہو تعالیٰ اعلم۔ (۳).قربانی کے جانور کی چربی کھانے کے کام میں لا سکتے ہیں ، دو تین ماہ کیا اس سے زائد بھی رکھ سکتے ہیں ، لیکن جلانا نہیں چاہیے۔واللہ تعالیٰ اعلم (۴).ایامِ قربانی گزرنے کے بعد اس رقم کا صدقہ کرنا واجب ہے اور صدقاتِ واجبہ مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے۔ پوری تلاش کے بعد اگر قربانی کا جانور میسر نہ آیا تو اب وہ شخص معذور ہے۔ وہ قیمت تعمیر مسجد میں لگا سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved