8 September, 2024


دارالاِفتاء


گوشت آسٹریلیا میں ذبح کر کے بھیجتے ہیں جو ایک ماہ کا راستہ ہے اور جہاز سے یہاں آتا ہے اور برف میں رکھ کر آتا ہے ، پھر ذبح کرنے والے کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان ہے۔ اس کے پیکنگ میں اس کی تصویر لگی رہتی ہے ،اس کے سر پر ٹوپی بھی نہیں ،کیااس صورت میں مانا جاسکتا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ ہے اور پھر یہ گوشت کفار منگاتے ہیں اور پھر یہ گوشت اور گوشتوں کے ساتھ ملا کر آتا ہے ، اس میں خنزیر کا گوشت بھی ساتھ ہی آتا ہے ۔

فتاویٰ #1175

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجوابـــــــــــــــــ: مجبوری اور اضطراری حالت(حاشیہ: یہاں اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ آدمی مسلسل بھوک کی شدت کی وجہ سے مرنے کے قریب پہنچ جائے اور اسے یہ گمان غالب ہو جائے کہ اگر کچھ نہ کھایا تو مر جائے گا ، اسے مردار اور حرام جانور کے گوشت کے سوا کچھ نہ ملے تو حرام گوشت سے جان بچانے کی مقدار کھانا جائز ہے۔ مرتب) میں تو کسی جانور کا گوشت بھی ہو ذبح کیا ہو یا نہ کیا ہو بقدر ضرورت کھانا جائز ہے ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے : ’’ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ١ؕ ‘‘ مگر جب تم اس کی طرف مضطر کيے جاؤ تو بقدر ضرورت کھاؤ۔ مگر اختیاری صورت میں حلال جانور کا بھی ذبح شرعی ضروری ہے بغیر ذبح شرعی کے حرام ہے ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے۔ ’’ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ ‘‘ یعنی اس کو نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ ذکر کیا گیا ہو ۔ یعنی مسلمان یا کتابی حلال جانور کو تسمیہ (بسم اللہ اللہ اکبر) پڑھ کر ذبح کرے تب کھاؤ، اور اگر غیر مسلم یا غیر کتابی تسمیہ پڑھ کر بھی ذبح کرے تب بھی حرام ہے ۔ نیز مسلمان اور کتابی ہی ذبح کریں لیکن اگر وہ قصداً تسمیہ ترک کردیں تب بھی حرام ہے ۔ ہدایہ میں ہے : ومن شرطہ أن یکون الذابح صاحب ملۃ التوحید إما اعتقادا کالمسلم أو دعویٰ کالکتابي والمسلم والکتابي في ترک التسمیۃ سواء ۔ یعنی ذبح کرنے کی شرط یہ ہے کہ ذبح کرنے والا دین توحید رکھتا ہو ، اعتقاد اً جیسے مسلمان یا بطور دعویٰ جیسے کتابی۔ اور مسلمان اور کتابی ترک تسمیہ میں دونوں برابر ہیں۔ یعنی قصداً تسمیہ ترک کردیں تو ان کا ذبیحہ حرام ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا کتابی اور تسمیہ پڑھ کر ذبح کرے تب حلال ورنہ حرام۔ لہذا جب تک بہ تحقیق ظن غالب نہ ہو کہ اس جانور کو مسلمان یا کتابی نے تسمیہ پڑھ کر ذبح کیا ہے اس کا کھانا جائز نہیں۔ صورتِ مسئولہ میں ذبح کرنے والے کے متعلق مسلم یاکتابی ہونے کا نہ یقین نہ ظن غالب بلکہ اشتباہ ہے ، اور یہ شک ذبح کرنے والے میں ہے ، اور ذبح کرنےوالے کا مسلم یا کتابی ہونا شرط ہے تو شک میں وہ شرط نہ پائی گئی۔ لہٰذا جب تک شک رہے گا یہ ذبیحہ جائز نہ ہوگا۔ البتہ اگر کسی ذریعہ یہ شک رفع ہو جائے خواہ خبر سے خواہ تحریر سے ذبح کرنے والے کا مسلم یا کتابی ہونے کا ظن غالب حاصل ہو جائے تو جائز ہوگا۔ مگر اس میں دائر اشتباہ مردار گوشت ساتھ ہونے کا بھی ہے ۔ اس کے رفع کی صورت یہ ہے کہ اگر مردار گوشت کم ہے اورحلال گوشت زیادہ تو تحری کرے اور ظن غالب حلال ہونے کا ہے تو جائز ورنہ نہیں۔ ہدایہ میں جامع صغیر سے ہے : وإذا کان الغنم مذبوحۃ فیھا میتۃ فإن کانت الذبیحۃ أکثر تحري وأکل۔ ذبح کی ہوئی بکریوں میں مردار بھی ہے تو اگر ذبح کی ہوئی زیادہ ہیں تو تحری کرے اور کھائے۔ یعنی تحری سے مذبوحہ کا ظن غالب ہو تو اس کو کھائے۔ اس پر ان کا پورا قبضہ بھی ہوتا ہے تو مسلمانوں کی حفاظت اور نگرانی میں نہیں رہتا اور گوشت کا حکم بعد قبضہ قابض کی حیثیت سے ہے ۔ یعنی قابض اگر صاحب ذبیحہ ہے تو اس کا گوشت کھانا جائز ورنہ نہیں فتاوی قاضی خاں میں ہے : إذا دعاہ المجوسي والنصراني إلی طعامہ یکرہ للمسلم أن یأکل و إن قال اشتریت اللحم من السوق لأن المجوسي یبیع المنخنقۃ والموقوذۃ والنصراني لا ذبیحۃ لہ و إنما یاکل ہو ذبیحۃ المسلم أو یخنق و إن کان الداعي إلی الطعام یھودیاً فلا بأس للمسلم أن یاکل طعامہ لأن الیہودي لایأکل إلامن ذبیحۃ الیہودي أو المسلم۔ یعنی اگر مجوسی اور نصرانی نے مسلمان کو اپنے کھانے کی طرف مدعو کیا تو مسلمان کو وہ کھانا کھانا مکروہ (تحریمی) ہے ، اگرچہ وہ کہے کہ یہ گوشت میں نے بازار سے خریدا ہے ، کیوں کہ مجوسی گلاگھوٹا ہوا اورلاٹھی سے مارا ہوا کھاتے ہیں، اور نصرانی خود ذبح نہیں کرتے بلکہ جانور کا گلا گھونٹتے ہیں یا مسلمان کا ذبیحہ کھاتے ہیں ۔ اور اگر دعوت دینے والا یہودی ہے تو مسلمان کو کھانے میں حرج نہیں کیونکہ یہودی یا تو یہودی کا ذبیحہ کھاتے ہیں یا مسلمان کا۔ اس سے ظاہر ہے کہ گوشت کا حکم قابض کے اعتبارسے ہے اگر قابض صرف یہودی یا مسلمان کا ذبیحہ کھاتا ہے تو اس گوشت کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ورنہ مکروہ تحریمی ہے ۔ لہذا یہ تاجر اگر واقعی ذبیحہ ہی کھاتے ہیں تب تو خیر ورنہ یہ گوشت باوجود رفعِ اشتباہ ِبالا کے بھی مکروہ تحریمی ہے ۔ جس سے مسلمان کو بچنا ہی چاہیے اور پر ہیز و گریز ہی کرنا چاہیے۔ وھو تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved