21 November, 2024


دارالاِفتاء


زید نے اپنی لڑکی مسماۃ خالدہ کا نکاح بکر کے ساتھ کر دیا، جس کو قریب سات برس کا زمانہ ہوتا ہے۔ اب سات برس کے بعد جب خالدہ اپنے میکہ آئی تو وہ کہتی ہے کہ آج تک بکر نے میرے ساتھ وہ تعلق جو زن و شوہر کے لیے مخصوص ہے، کبھی نہ کیا اور نہ اس کے کرنے پر وہ قادر ہے۔ میں نے شرم و حجاب کی وجہ سے اب تک اس کو ظاہر نہ کیا۔ مگر اب جب کہ میں بالکل مجبور ہو چکی ہوں اور اپنے انجام کو دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ میری زندگی تباہ و برباد ہو جائے گی، لہٰذا اب میں نے ظاہر کیا۔ اب بکر کے ساتھ میرا رہنا کسی طرح نہیں ہو سکتا ہے۔ لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ خالدہ اور بکر میں تفریق جائز ہے یا نہیں؟ تو اس صورت میں از روے شرع شریف کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔ نوٹ: عوام میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ بکر عنین ہے یعنی عورت کے قابل نہیں ۔

فتاویٰ #1143

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: صورتِ مسئولہ میں بکر واقعی عنین ہے تو بکر کو چاہیے کہ طلاق دے اور طلاق نہ دے تو عورت اپنے اس معاملہ کو قاضی کے سامنے پیش کرے اور قاضی کے دریافتِ حال کے بعد اگر شوہر نے عنین ہونے کا اقرار کر لیا تو ایک سال کی مدت مقرر کر دے۔ اس مدتِ معینہ میں اگر بکر کامیاب ہوا تو فبھا ورنہ طلاق دے اور اگر طلاق سے رکے تو خود قاضی ان کے درمیان تفریق کر دے۔ اس سے نکاح ختم ہو جائے گا اور اگر خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہے تو پورا مہر پائے گی اور نکاح کرنا چاہے تو عدت کے بعد کر سکتی ہے۔ چوں کہ اس زمانے میں قاضی نہیں ہے لہٰذا کسی بڑ ے عالم متدین و متشرع کو پنچ مان کر تصفیہ کرا لے ۔ ہدایہ میں ہے: ’’واذا کان الزوج عنّینا اجلّہ الحاکم سنۃ فان وصل الیھا فبھا والافرق بینھما وتلک الفرقۃ تطلیقۃ بائنۃ ۔‘‘ اسی میں ہے: ’’ولھا کمال المہر ان کان خلابھا فان خلوۃ العنین صحیحۃ و یجب العدۃ ۔‘‘ فتاویٰ خیریہ میں ہے: ’’ویصح التحکم فی مسئلۃ العنین لانہ لیس بحد ولا قود ولادیۃ علی العاقلۃ ولھم ان یفرقوا بطلب الزوجۃ۔‘‘ واللہ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved