21 November, 2024


دارالاِفتاء


میری دو بیویاں ہیں ۔ ایک شب دوسری بیوی نے کہا کہ مجھے سوکن(سوتن) کا ساتھ برداشت نہیں ہوتا، بہتر ہے کہ تم مجھ کو چھوڑ دو۔ میں نے کہا اپنے طرف سے ایسا ہر گز کرنے کو تیار نہیں اورنہ د نیا کی کوئی طاقت مجھ سے ایسا کرا سکتی ہے، ہاں اگر تمہاری مرضی یہی ہے تو اس پر غور کروں گا۔ دوسرے دن ایک مسودہ اس خیال سے تیار کر لیا گیا کہ اگر کل تک آپس میں کوئی مفاہمت نہیں ہوئی تو طلاق نامہ نافذ کر دوں گا اور چوں کہ مفاہمت کی امید تھی، اسی وجہ سے اس طلاق نامہ پر میں نے آنے والے کل کی تاریخ ڈالی تھی اور اپنے دستخط بھی اس پر نہیں کیے تھے، اس کے میرے پاس گواہ ہیں اور نہ میں نے اس تحریر کو اپنی بیوی کو دکھایا تھا ۔ پھر اس دن میں نے ایک شخص کو بھیج کر معلوم کرنا چاہا کہ اب ان کی کیا راے ہے ۔ میرے بھیجے ہوئے آدمی نے میری بیوی سے گفتگو کر کے آکر مجھے اطلاع دی کہ اب تمہاری بیوی کے خیالات تبدیل ہو گئے ہیں اور وہ طلاق نہیں چاہتی، اس لیے میں نے خاموشی سے موجودہ طلاق نامہ نذر آتش کر دیا۔ کیا ایسی حالت میں از روے شرع میری بیوی مجھ سے علاحدہ ہو گئی ، جب کہ طلاق اس کی مرضی پر تھی اور نفاذ سے پہلے ہی اس نے لینے سے انکار کر دیا اور اس انکار کے بعد میں نے خاموشی سے اپنی بیوی کو کسی قسم کی اطلاع کے بغیر وہ طلاق نامہ جو نامکمل اور مؤقت تھا یعنی کہ جس پر میں نے اپنے دستخط نہیں کیے تھے اور جس پر آنے والے کل کی تاریخ تھی، نذر آتش کردیا۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ #1137

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: چوں کہ طلاق نامہ کا نفاذ مفاہمت نہ ہونے پر موقوف تھا، نیز نافذ کرنے کا ارادہ ہی تھا اور مفاہمت ہو گئی، لہٰذا طلاق نہ ہوگی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved