8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد پھر اسے رکھ لیا ، جس کو بہت عرصہ ہو رہا ہے ۔ اس کی طلاق سے پہلے بھی اولادیں ہیں اور بعدِ طلا ق پھر چند اولادیں ہیں ۔ یہاں کا دستور ہے کہ ہر نکاح کے واسطے جماعت سے اجازت نامہ کا پروانہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اب صورتِ مسئولہ میں جماعت ان لڑکوں کے نکاح کے واسطے پروانہ دے یا نہ دے، یعنی نکاح میں رکاوٹ پیدا کرے اس خیال سے کہ شاید اس سختی سے بھی اپنے ناجائزفعل سے رک جائے ۔ جماعت کا خیال ہے کہ لڑکا اگر اپنی والدہ اور والدسے الگ ہو جائے تو نکاح کا پروانہ(چھٹی) دیا جائے گا۔ جماعت کا یہ خیال شریعت مطہرہ سے درست ہے یا غلط؟ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ #1124

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: طلاق کی تین قسمیں ہیں ، رجعی، بائن، مغلظہ اور ہر ایک کا حکم جدا گانہ ہے ۔ طلاقِ رجعی میں عدت کے اندر رجعت جائز ہے اور بعد عدت نکاح کر سکتا ہے ۔ طلاق بائن میں رجعت جائز نہیں لیکن نکاح کر سکتا ہے۔طلاقِ مغلظہ میں بغیر حلالہ نکاح بھی نہیں کر سکتا۔ (عامہ کتب) لہٰذا اس شخص نے اگر طلاقِ رجعی دی تھی اور عدت کے اندر رجعت کر لی تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں اور اگر طلاقِ بائن دی تھی یا رجعی میں بعد عدت بغیر نکاح اس مطلقہ کو رکھ لیا تو یہ حرام ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اس سے نکاح کر لینا چاہیے ۔ اور اگر طلاقِ مغلظہ دی تھی تو اس کو رکھنا بھی حرام اور بغیر حلالہ نکاح بھی حرام ہے۔ مذکورہ بالا صورتوں میں سے جو صورت ارتکاب حرام کی ہو اس سے اجتناب ہر شخص پر فرض ہے اور اس معصیت پر توبہ لازم ہے۔ اگر توبہ نہ کرے تو مسلمان اس سے علاحدگی اختیار کریں ، اس کی اولاد و دیگر اعزہ و احباب کو بھی اس شخص سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ حرام کی نحوست کا بڑا وبال ہے۔ جماعت کا یہ خیال کہ لڑکا والدین کے اس فعلِ حرام سے متنفر ہو کر ان سے علاحدگی اختیار کرلے ، درست ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved