بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: عبد المعید نے محض جھوٹی خبر اڑادی اور حقیقت میں حمید اللہ نے طلاق نہیں دی تو اب عبد اللطیف کے جواب میں ’’ ہاں ‘‘ کہنے سے ایک طلاق رجعی ہوگئی، کیوں کہ لفظ چھوڑنا باب طلاق میں صریح ہے۔ ( جیسا کہ بہار شریعت باب طلاق میں ہے )۔ اور صریح کی تصدیق ہاں سے کی ہے ، لہٰذا طلاق رجعی ہوگئی۔ در مختار میں ہے : و لو قیل لہ طلقت امرأتک؟ فقال نعم او بلی طلقت واحدۃ رجعیۃ۔ رد المحتار میں ہے : قولہ طلقت اي بلانیۃ۔ اور اگر حقیقت میں حمید اللہ نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے اور عبد اللطیف کے جواب میں ہاں کہہ کر اپنی دی ہوئی طلاق کی صرف تصدیق کرنا مقصود ہے تو اس سے صرف اتنا معلوم ہوگا کہ طلاق دینے کا واقعہ جس کی اطلاع عبد اللہ نے دی تھی صحیح ہے اور اس صورت میں اس کی تفصیل معلوم ہونی چاہیے کہ حمید اللہ نے کن الفاظ سے طلاق دی، اس کے معلوم ہونے کے بعد ہی طلاق رجعی یا بائن ہونے کا حکم دیا جاسکتا ہے ۔ محمد بشیر کا حمید اللہ سے یہ سوال کہ ایک یا تینوں اور حمید اللہ کا جواب’’ ہاں ‘‘ اس سے صاف طور پر معلوم نہیں ہو پاتا کہ ایک کی تصدیق کرتا ہے یا تینوں کی جس پر کوئی حکم دیا جائے البتہ طلاق دینے کی تصدیق ہوتی ہے ۔ بہر حال تفصیل آنے کے بعد ہی طلاق کے رجعی یا بائن ہونے کا حکم ہوگا مذکورہ بالا سوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذ کے لکھانے والا واقعہ غلط ہے اور جہاں تک عبد اللطیف اور محمد بشیر اور حمید اللہ کے درمیان سوال و جواب کا تعلق ہے یہ صحیح ہے اس بنا پر یہ جواب ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org