21 November, 2024


دارالاِفتاء


شوہروں کے گم ہو جانے یا نامرد و مجنون ہو جانے ، یا ظالمانہ برتاؤ اور سنگ دلی کی وجہ سے عورتوں اور ان کے پورے گھرانے کے لیے سخت مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔ کوئی نہ ٹھکانے سے رکھتا ہے ، اور نہ طلاق دیتا ہے ، نہ خرچ دیتا ہے ، ان مشکلات کا حل موجودہ زمانے میں علمانے دو صورتوں سے نکالا ہے ۔ ایک تو یہ کہ مسلمان حاکم سے فسخ کرالیا جائے اس کے لیے بعض علما انہیں قیود و شرائط کا لحاظ کرتے ہیں جو قاضی شرع کے نزدیک معتبر ہوں، بعض علما صرف مسلم حاکم ہونا کافی جانتے ہیں ، جو فسخ. کرنے میں قوانین شرعیہ کا لحاظ نہیں کرتے۔ اور بعض علماے اہل حدیث نے تو اتنی وسعت دی ہے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید ہی نہیں لگاتے ، ہر حاکم کے فسخ کو معتبر جانتے ہیں ۔ ان صورتوں میں بعض جگہ یہ صورت اختیار کی گئی ہے کہ حکام عدالت کے فسخ. کرنے کے بعد یہ لوگ اپنے طور پر پنچایتی نظام کے ذریعہ سے جس میں دیندار لوگ اور بعض علما بھی شریک ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ فسخ کو نافذ کرتے ہیں ۔ لہٰذا سوال(۱) یہ ہے کہ فسخِ حکام کے بعد پنچایتی نظام مذکور میں از سر نو پوری کاروائی کرنی پڑے گی، یا صرف فسخ کو نافذ کردینا کافی ہوگا۔؟ (۲). بعض عورتیں شوہروں کے مفقود الخبر ہونے کے تین چار سال کے بعد ہی حکام سے فسخ کرالیتی ہیں اور بعض دوسری صورت میں شوہر کے عدم حاضری کی وجہ سے بھی عورت کو ڈگری مل جاتی ہے کیا ان صورتوں میں فسخ حکام جائز ہوگا یا نہیں۔؟ (۳). مسلم یا غیر مسلم حاکم کے فسخ. کرنے کے بعد شرعی پنچایت جس میں علما بھی شریک ہیں اگر ان میں اختلاف رائے ہو جائے تو اکثریت کا فسخ نافذ ہوگا یا نہیں ۔؟ (۴). اگر فسخِ حکام کے بعد شرعی پنچایت کا انعقاد ہوا اور اس کے بلانے پر اہل معاملہ اور ان کے گواہان جن کے بیان پر تحقیقِ معاملہ موقوف ہے نہ آئیں تو اس مجبوری کی صورت میں پوری کاروائی شرعی قاعدے سے کیوں کر انجام دی جائے؟

فتاویٰ #1104

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: ان سوالوں کا مقصد یہ ہے کہ شوہروں کے مظالم سے بچنے کے لیے کوئی ایسا شرعی طریقہ ہونا چاہیے کہ جس پر عمل کر کے عورتیں اپنی حفاظت کر سکیں اور ان ظالم شوہروں سے طلاق حاصل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں وہ ختم ہو جائیں اور آسانی سے طلاق حاصل ہو جائے، اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہروں کو ایسے شرائط سے پابند کردیا جائے جن سے ان مظالم کا سدّ باب ہو جائے، یا عورتیں بلاکسی دشواری کے نجات حاصل کرسکیں۔ یہ شرائط اس قسم کی ہونی چاہئیں جو ان خطرات کو کما حقہ ختم کرتی ہوں مثلا یہ شرط ہو کہ اگر شوہر نے اتنے دنوں تک نان ونفقہ نہیں دیا تو طلاق، یا اتنے دنوں تک غائب رہا اور خبر گیری نہیں کی تو طلاق ، یا اس حد تک مارا تو طلاق یا اس قسم کے دیگر شرائط بیان کر دیے جائیں جس سے عورتیں محفوظ رہ سکیں ۔ جب کبھی اس قسم کی باتیں پیش آئیں گی حسب شرائط طلاق پڑجائے گی۔اور شوہروں سے طلاق حاصل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں وہ نہیں آئیں گی۔ یہ شرائط تحریری ہوں تو بہتر ہے تاکہ انکار کا موقع نہ ملے اور گواہان کے نام بھی درج کر لیے جائیں اور شوہروں سے دستخط لے لیے جائیں ۔قاضی نامہ میں طلاق کے بائن یا مغلظہ ہونے کی تصریح کردی جائے ، یوں ہی شرائط صاف اور صریح ہوں ، مبہم یا محتمل الفاظ نہ ہوں جن کی طرح طرح کی تاویلیں کر کے ان ظالموں کو ظلم کرنے کا موقع ملے مثلا یوں نہ لکھا جائے کہ یہ بات ہوئی تو تصور کیا جائے ،یا سمجھا جائے بلکہ یوں لکھا جائے کہ یہ بات ہوئی تو طلاق ہو جائے گی یاپڑ جائے گی ، غرض کہ ہر طریقہ سے اطمینان کرلیا جائے۔ اس طریقہ مذکور پر عمل کرنے کے بعد کسی مزید کاروائی کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved