8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید نے اپنی نابالغہ بچی کا عقدعمرو کے نابالغ بچے سے کیا ۔ چوں کہ بچی نابالغہ تھی اور ہے ۔ اس لیے زید نے جہیز کا سامان عمرو کے واسطے سے بچی کو دیا۔ کچھ مدت کے بعد عمرو کے لڑکے نے بحالتِ بلوغ طلاق دے دی ۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ سامانِ جہیز زید واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ بچی کا حق دین مہر اب تک باقی ہے ۔ اس کے متعلق ملتِ اسلامیہ کا کیا حکم ہے؟ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ #1085

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: زید نے جو کچھ جہیز اپنی لڑکی کے لیے عمرو کو دیا ، وہ زید کی لڑکی ہی کی ملک قرار پائے گا ۔ اس لیے کہ عرف یہی ہے کہ جہیز لڑکی کے سسرال والوں ہی کے سپرد کیا جاتا ہے اور مقصود لڑکی کو دینا ہوتا ہے ۔ خسر یا شوہر کو جہیز کا مالک نہیں بنایا جاتاہے ۔ چوں کہ سائل مظہر ہے کہ زید کی لڑکی اب بھی نابالغہ ہے لہٰذا اس صورت میں زید لڑکی کے شوہر سے لڑکی کا جہیز واپس لے گا ۔ اگر لڑکی بالغہ ہوتی تو وہ خود جہیز کا مطالبہ کرتی ، یا کسی کو وکیل بناتی۔ عالم گیری میں ہے : لوجھز ابنتہ و سلمہ الیھا لیس لہ فی الاستحسان استردادہ منھا۔ چوں کہ یہ طلاق قبل دخول ہوئی لہٰذا نصف مہر لڑکی کو ملے گا ، یہ مہر شوہر پر دین ہے ۔ قال اللہ تعالیٰ: وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ . واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved