8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہندہ بعض وجو ہات سے اپنے شوہر کے یہاں رہنا نہیں چاہتی تھی، آخر کار اس کا شوہر مجبور ہوکر یہ کہتا تھا کہ اگر وہ عمرو سے شادی نہ کرے گی تو میں اس کو طلاق دے دوں گا ۔جب ہندہ کے بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے ہندہ کے شوہر سے اقرار کیا کہ عمرو سے شادی نہ کرے گی میں اس کو سمجھادوں گا اس پروہ راضی ہوگیا اور اس لیے چند آدمیوں کو مہر معاف کرانے کے لیے ہندہ کے پاس بھیجا ہندہ کو بھی اپنے بھائی کے اقرار کی اطلاع ہوچکی تھی تو اس نے مہر معاف کرنے سے انکار کیا تو اس پر لوگوں نے کہا کہ کوئی اقرار نہیں جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے تو اس پر ہندہ نے معاف کردیااور اس کے بعد اس کے شوہر نے ہندہ کو طلاق دے دیا اور طلاق دیتے وقت اس کے شوہر نے کوئی شرط نہیں لگائی تھی ( یہ سب شرط طلاق و اقرارزبانی ہے ) تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہندہ پر ہندہ کے بھائی کا اقرار نافذ ہوگا کہ نہیں اور ہندہ عمر و سے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں ۔ بینوا تو جروا یوم الحساب۔

فتاویٰ #1073

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: صورت مسئولہ میں ہندہ کے شوہر کا یہ کہنا کہ اگر وہ عمرو سے شادی نہ کرے گی تو میں اس کو طلاق دیدوں گا اور ہندہ کے بھائی کا یہ اقرار کرنا کہ وہ عمرو سے شادی نہ کرے گی میں اس کو سمجھادوں گا لغو وبیکار محض جہالت ہے۔اس سے ہندہ مقید و مجبور نہیں ہوسکتی جب کہ اس نے ہندہ کو طلاق دیدیا اور بوقت طلاق کو ئی شرط بھی نہ لگائی جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو وہ مطلقہ ہوگئی۔ اس پر طلاق واقع ہوگئی ،ہندہ بالغہ خود مالک و مختار ہے بعد ختم عدت عمرو یا جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے بھائی اس کو مجبور نہیں کرسکتا ۔ حدیث شریف میں ہے: الأ یِّم احقّ بنفسھا من ولیھا۔( ( اور ہدایہ میں ہے : لایجوز للولی اجبار البکر البالغۃ علی النکاح۔( ( اوراسی میں ہے : انھا حرۃ فلایکون للغیر علیہ ولایۃ الاجبار۔( ( واللہ اعلم بالصواب۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved