بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: اگر حیض وغیرہ بلوغ کی علامتیں پائی جاتی ہیں تو گیارہ بارہ سال کی لڑکی بھی بالغ ہو سکتی ہے۔ اگر اس وقت وہ بالغ تھی تو وہ خود مختار تھی۔ اس کی رضا مندی سے نکاح ہوگا اور اس کو مجبور کرنے کا حق کسی کو نہیں ، نہ ماں باپ کو، نہ کسی اور کو۔ لہذا اگر اس نکاح سے وہ لڑکی راضی تھی یا نکاح کے بعد راضی ہو گئی اور اپنے کوشوہر کے سپرد کر دیا تو نکاح ہو گیا۔ اس صورت میں جب تک پہلا شوہر طلاق نہ دے دوسرا نکاح جائز نہیں ۔ اور اگر نکاح کے وقت لڑکی نابالغ تھی اور ماں کی اجازت سے نکاح ہوا تو یہ نکاحِ فضولی ہوا۔ کیوں کہ باپ کی موجودگی میں ماں کو حقِ ولایت حاصل نہیں ۔ لہٰذا باپ کی اجازت پر موقوف تھا۔ ہدایہ میں ہے: کل عقد صدر من الفضولی ولہ مجیز انعقد موقوفاً علی الاجازۃ. ( ( اگر باپ اجازت دیتا تو درست ہوتا، مگر جب کہ باپ نے اجازت نہیں دی، بلکہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو یہ نکاح باطل ہوا۔ اس صورت میں لڑکی آزاد ہے، جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org