8 September, 2024


دارالاِفتاء


وتر کے بعد کی جو دو نفل پڑھے جاتے ہیں ، ان کو بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے یا کھڑے ہو کر پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے؟ کیوں کہ ہمارے اس اطراف میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ بعض اشخاص یہ کہتے ہیں کہ حضور نے یہ نفل بیٹھ کر پڑھی ہے اور حضرت انس کا قول پیش کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بھی بیٹھ کر پڑھنا لکھا ہے۔ لہٰذا بحوالہ حدیث تحقیقی جواب دیں۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1038

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: نفل نماز میں کلیہ قاعدہ یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھنے کی قدرت ہو جب بھی بیٹھ کر پڑھنا جائزہے۔ مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے ۔ حدیث میں فرمایا:’’صلوٰۃ الرجل قاعداً نصف الصلوٰۃ۔‘‘ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نصف ہے۔ یعنی آدھا ثواب ہے۔ اور عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے تو ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔ وتر کے بعد جو دو رکعت نفل پڑھے جاتے ہیں ، ان کا بھی یہی حکم ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے ، اور اس میں حدیث سے دلیل لانا کہ حضور اقدسﷺ نے وتر کے بعد نفل بیٹھ کر پڑھے ہیں صحیح نہیں، کیوں کہ یہ حضور کی خصوصیت میں سے ہے۔ چناں چہ صحیح مسلم شریف کی حدیث عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے، فرماتے ہیں: مجھے خبر پہنچی کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھی ہے۔ اس کے بعد میں حاضر خدمت ہوا تو حضور کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ سرِ اقدس پر میں نے ہاتھ رکھا (کہ بیمار تو نہیں ہیں)ارشاد فرمایا، کہ کیا ہوا عبد اللہ؟ عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ حضور نے تو ایسا فرمایا ہے اور حضور بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ فرمایا، ہاں، لیکن میں تم جیسا نہیں ہوں۔ حدیث کے مبارک الفاظ یہ ہیں: ’’عن عبد اللہ بن عمر و قال حدثت أن رسول اللہ ﷺ قال صلوٰۃ الرجل قاعداً نصف الصلوٰۃ قال فاتیتۃ فوجدتہ یصلی جالساً فوضعت یدی علی رأسہ فقال مالک یا عبد اللہ بن عمرو! قلت: حدثت یا رسول اللہ إنک قلت صلوٰۃ الرجل قاعداً علیٰ نصف الصلوٰۃ و أنت تصلی قاعداً؟ قال: اجل و لکنی لست کاحد منکم۔‘‘ ) ( امام نووی ﷫ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’قولہ ﷺ مع القدرۃ علی القیام کنا فلتہ قائماً تشریفا لہ کما خص باشیاء معروفۃ۔‘‘ یعنی حضور ﷺ کا یہ فرمان کہ میں تم جیسا نہیں وہ حضور کے خصائص میں سے ہے ۔ لہٰذا حضور کی نفل نماز بیٹھ کر باوجود قدرت کے کھڑے ہونے پر ایسے ہی ہے جیسے حضور کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔ امام ابراہیم حلبی و صاحب در مختار و صاحب رد المحتار نے فرمایا کہ یہ حکم حضور کے خصائص میں سے ہے۔ اور اسی حدیث سے استدلال فرمایا۔ ’’اما النبی ﷺ فمن خصائصہ ان نافلتہ قاعداً مع القدرۃ علی القیام کنا فلتہ قائماً ففی صحیح مسلم عن عبد اللّٰہ بن عمر و حدثت یا رسول اللہ انک قلت صلوۃ الرجل قاعداً علی نصف الصلوٰۃ و انک تصلی قاعداً قال اجل و لکنی لست کاحد منکم۔‘‘ ) ( جب بیٹھ کر نفل پڑھنے میں ثواب کم نہ ہونا حضور ﷺکے خصوصیات سے ہوا تو دوسرے کسی شخص کے لیے یہ حکم نہیں ہو سکتا۔ دوسرا شخص بلا عذر کوئی نفل بھی بیٹھ کر پڑھے گا تو اس کا ثواب آدھا ہی پائے گا، جو احکام حضور کے ساتھ خاص ہیں، ان میں دوسروں کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ مثلاً صومِ وصال پے در پے بلا افطار روزہ رکھنا حضور کی خصوصیات میں سے ہے۔ لہٰذا دوسروں کے لیے مکروہ ہے۔ یہ استدلال کرنا غلط ہے کہ چوں کہ حضور ﷺ نے صومِ وصال رکھا ہے لہٰذا ہمارے لیے بھی صومِ وصال افضل ہے۔ اسی طرح یہ استدلال کہ چوں کہ حضور ﷺ نے وتر کے بعد نفل بیٹھ کر پڑھے ہیں ، لہٰذا ہمارے لیے بھی بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے، قطعاً غلط ہے۔ کیوں کہ یہ حضور کی خصوصیت ہے کہ حضور کے ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved