8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید زبر دست عالم متقی پر ہیزگار اور امام ہے۔ اتفاق سے ایک مرتبہ زید کے پاس ایک شخص آتا ہے جو زید کا نزدیکی اور معتبر ہے وہ شخص زید سے کہتا ہے کہ فلاں مدرسے میں اب بجائے عربی کے ہندی اور انگلش کی تعلیم دی جاتی ہے ، یادی جائے گی۔ زید نے یہ بات یعنی فلاں مدرسے میں……… بذریعہ ڈاک روانہ کردی حالانکہ اس مدرسہ میں عربی کی بھی تعلیم ہوتی تھی اور ہوتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے اس صورت میں زید جھوٹا ہے یا وہ شخص جس نے زید سے کہا؟ پنچایت ہوئی تو زید کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ آپ اس تحریر کی وجہ سے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اب لائق امامت نہیں۔ زید نے تمام موجودہ مسلمانوں کے سامنے اس بات سے اور تمام معصیتوں سے توبہ کی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں زید کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہوسکتی ہے یا نہیں اور زید لائق امامت بلا کراہت ہے کہ نہیں؟ فریق مخالف مصر ہے کہ تحریری توبہ نامہ ہو اور وہ اسی شہر میں اس شخص کے پاس بھیجا جائے اس وقت لائق امامت ہونگے حق و صحیح کیا ہے رقم فرمائیں۔ اگر زید کا جھوٹ ثابت نہیں اور وہ لائق امامت ہے پھر بھی فریق مخالف گاؤں گاؤں چرچا کرتا پھررہاہے کہ فلاں مولوی صاحب جھوٹے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز نہیں اور جو فریق مسلمانوں کو ان سے بدظن کرے اس فریق کا شرعا کیا حکم ہے ۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1033

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: صورتِ مسئولہ میں زید جھوٹ نہیں بولا بلکہ ایک معتبرشخص کی بات نقل کردی اگرچہ وہ بات جھوٹ تھی لہٰذا اس صورت میں زید جھوٹا نہیں۔ اور اگر زید جھوٹ بولتا اور یہ قول زید ہی کا ہوتا لیکن جب کہ زید نے مجمع عام میں توبہ کرلی تو زید بے قصور ہوگیا، حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ، رواہ ابن ماجہ و البیہقی في شعب الإیمان عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ تعالیٰ عنہ۔ ) ( گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے گناہ کیا ہی نہیں ۔ لہٰذا بہر صورت زید کی امامت صحیح ہے اور اس کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے ، زید کو نہ تحریری توبہ نامہ لکھنے کی ضرورت ہے اورنہ تحریری توبہ نامہ کا اصرار درست ۔مجمع عام میں توبہ بہر صورت کافی ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved