بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: مسجد خانۂ خدا ہے، دربارِ الٰہی ہے۔ بادشاہ اور حاکم کے دربار کی حاضری کا بلاوا دربار کے باہر ہی سے ہوتا ہے ، دربار کے اندر سے پکارنا بے ادبی ہے ۔ اس لیے اذان مسجد کے باہر مشروع ہوئی ، لہذا اذانِ ثانی ہو یا اول ، جمعہ کی ہو یا دوسرے اوقات کی ، ہر اذان مسجد کے اندر مکروہ ہے ۔ فتاویٰ عالم گیری ، قاضی خان اور شامی وغیرہ فقہ حنفیہ کی تمام کتابوں میں ہے: ’’یکرہ أن یؤذن فی المسجد۔‘‘) ( مسجد میں اذان مکروہ ہے۔ جمعہ کی اذانِ ثانی جو خطبہ کے وقت ہوتی ہے وہ بھی اذان ہی ہے ، لہذا وہ بھی مسجد کے اندر مکروہ ہے۔ اس کی کراہت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اذان ہے اور ہر اذان مسجد کے اندر مکروہ ہے۔ لہذا یہ اذان بھی مسجد کے اندر مکروہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ اور خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سنت کریمہ کے خلاف ہے۔ لہذا مکروہ ہوئی۔ حضرت سائب بن یزید کی حدیث مذکور فی السوال سے حضور ﷺ اور حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم کے زمانۂ اقدس میں اذانِ ثانی مسجد کے باہر ہونا ثابت ہے ۔ اور کوئی روایت ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کے عہد پاک میں اذانِ ثانی مسجد کے اندر ہوتی تھی۔ لہٰذا قدیم طریقہ ہی پر بات رہے گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ پوری خلافتِ راشدہ میں اذانِ ثانی مسجد کے باہر ہی ہوتی تھی ۔ لہٰذا اس کے خلاف اندرونِ مسجد ہونا بلا شبہہ مکروہ ہوگا۔ اور حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر کے زمانہ کی تخصیص اذانِ اول کے اعتبار سے ہے ۔ یعنی اذانِ اول حضرت عمر کے زمانہ میں نہ تھی بلکہ دورِ عثمانی میں ہوئی، اور یہ اذانِ اول بھی مسجد کے باہر مقامِ زوراء پر ہوتی تھی۔ اور وہ اذان جو حضورِ اقدس ﷺ کے زمانہ میں مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی، اس میں کسی قسم کا کوئی تغیر حضرت عثمان غنی سے ثابت نہیں ، لہٰذا وہ اپنی حالت پررہی ، بغیر ثبوت اسے مسجد کے اندر سمجھنا اور حضرت عثمان غنی کی طرف بلا ثبوت اس کی نسبت کرنا حضرت عثمان غنی پر افترا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ حضرت عثمان غنی نے مسلمانوں میں جب سستی دیکھی تو ضرورت محسوس کی اور ضرورۃً اذانِ اول کا اضافہ کیا۔ اس کے اضافے سے وہ ضرورت ختم ہو گئی۔ اذانِ ثانی کو حضورِ اقدس ﷺ اور شیخین کی سنتِ کریمہ کے خلاف مسجد کے اندر لانے کی کون سے ضرورت پیش آئی، بلکہ ضرورت تو دوسری کو بحالہ مسجد کے باہر رکھنا چاہتی ہے۔ کفایہ کی عبارت سے بکر کا استدلال کرنا صحیح نہیں، کفایہ کی عبارت میں اذان سے سعی واجب کی ہے اور بیع حرام کی ہے۔ اس میں یہ دلیل قائم کی ہے کہ اگر اذانِ ثانی کا انتظار کر لیا گیا تو سنت کی ادا فوت ہو جائے گی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اذانِ ثانی اور اول دونوں مسجد سے خارج ہی ہیں۔ دونوں اذانوں کو مسجد کے باہر کے لوگ برابر سنتے ہیں جب ہی تو فرمایا کہ اگر اذان عند المنبر کا انتظار کرے گا تو سنت ترک ہو جائے گی۔ اگراذانِ ثانی مسجد کے اندر منبر کے قریب ہی ہو تو شہر والے ، محلے والے، ، بازار والے اس کا انتظار کیسے کریں گے۔ ان کو اس کی آواز کیسے پہنچے گی۔ کفایہ کی عبارت:’’لو انتظر الأذان عند المنبر۔‘‘ خود اس پر دلیل ہے کہ اذان عند المنبر بھی مسجد سے خارج ہے مگر عند المنبر اس لیے کہا ہے کہ منبر کے سامنے ہے اورمنارہ کی نسبت منبر سے قریب بھی ہے۔ لہذا جمعہ کی اذانِ ثانی بھی خارجِ مسجد ہی سنت ہے۔ لیکن منبر کے سامنے ہونا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org