8 September, 2024


دارالاِفتاء


-ایک امام صاحب کا کہنا ہے کہ مدرسہ موجود ہوتے ہوے مسجد میں قرآن کی تعلیم دینا اور سکھانا جائز نہیں

فتاویٰ #988

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الجوابـــــــــــــــــــــــــ "قرآن کی تعلیم دینے اور سکھانے" سے مراد اگر ناظرہ کی تعلیم ہے جو چھوٹے بچوں کو دی جاتی ہے اور مدرسے میں ان کے لیے بقدر کفایت کشادہ جگہ ہے جہاں انھیں بیٹھاکر قرآن پاک کے ناظرہ کی تعلیم دی جا سکے تو ان کی تعلیم مدرسے میں ہی ہونی چاہیے جہاں تک ممکن ہو مسجد میں اجرت یا تنخواہ پر تعلیم دینے سے بچیں اصل حکم شرع یہی ہے کہ مسجد میں اجرت پر تعلیم دینا جائز نہیں مگر جگہ کی تنگی اور افراد کی کثرت کی وجہ سے بضرورت مسجد میں تعلیم دینے کی اجازت ہوئی اور جو حکم ضرورت شرعی کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے وہ بقدر ضرورت ہوتا ہے صورت مسئولہ میں اگر مدرسے میں کشادگی اس قدر بے کہ وہاں بچوں کو ابتدائی تعلیم دی جا سکے تو مسجد میں تعلیم دینے کی ضرورت نہیں رہ جاتی اس لیے مسجد میں اس تعلیم کی اجازت نہ ہوگی اس بارے میں مجلس شرعی نے یہ فیصلہ کیا ہے: مندوبین کا اتفاق ہے کہ جب شرعا ضرورت یا حاجت متحقق ہو تو بہ صورت مذکورہ مسجد میں دینی تعلیم جائز ہے، مگر اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ جلد وسائل مہیا کرکے مسجد سے باہر کسی جگہ مدرسہ قائم کیا جائے اور الگ مدرسہ بنانے کی وسعت ہو جانے کے بعد مسجد کو با تنخواہ تعلیم کے کام میں نہ استعمال کیا جائے۔ حضرت مفتی اعظم شاہ محمد مصطفی رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ نے مدرسہ مظہر الاسلام ابتداءً مسجد بی بی جی محلہ بہاری پور بریلی میں قائم کیا تھا، بعد میں مسجد سے متصل زمین میں منتقل کیا۔ ممبئی کے اندر مولانا سید حامد اشرف علیہ الرحمہ نے ابتداءً باولا مسجد میں درس گاہ قائم کی جس کے افتتاح میں حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ نے شرکت فرمائی، اور مجاہد ملت مولانا شاہ حبیب الرحمن قادری عباسی علیہ الرحمہ نے الہ آباد میں مسجد اعظم کے اندر مدرسہ حبیبیہ قائم کیا۔ (مجلس شرعی کے فیصلے، ج:اول، ص:319) اور اگر قرآن کی تعلیم سے مراد حفظ قرآن و تجوید قرآن کی تعلیم ہو تو اسے بیان کرکے دوبارہ سوال کر سکتے ہیں اس میں نسبتا کچھ گنجائش ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ املاہ: محمد نظام الدین رضوی 2؍صفر 1443ھ 9؍ستمبر 2021ء

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved