21 November, 2024


دارالاِفتاء


(۱) زید سروس سے ریٹائرڈ ہو چکا ہے، اس کے پاس تین لاکھ روپے تھے جسے اس نے بینک میں تین سال کے لیے جمع (فکس) کر دیا ہے۔ اس جمع شدہ رقم سے ہر ماه تین ہزار روپے حاصل کر کے اپنے اہل وعیال کی ضروریات پوری کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ اس کو ہر ماہ جو فائدہ ملتا ہے اسے بچا نہیں سکتا۔ اور اصل رقم تین سال پورا ہونے پر ہی توڑ سکتا ہے اگر کسی خاص ضرورت کے تحت اس جمع شدہ رقم کو توڑتا ہے تو اس کو نقصان ہوگا اور فائدہ کم ملے گا جس سے اپنی ضرورت پوری نہیں کر پائے گا ایسی حالت میں اگر وہ مالک نصاب ہے تو زکات کس طرح ادا کرے گا؟ (۲) عمر نامی شخص کی ایک بہن ہے شادی شدہ اور عمر دراز ہے، اس کا شوہر کئی سال قبل دوسری شادی کر کے الگ رہتا ہے ۔ اور پہلی بیوی کا خیال نہیں رکھتا ہے ۔ یہ عورت اپنے رشتہ داروں کی مدد کی مستحق ہے، کیا اس کو فطرہ وزکات کی رقم بغیر ظاہر کیے ہوئے کہ زکات کی رقم ہے دے سکتا ہے ؟ چوں کہ ایسا اندیشہ ہے کہ زکات بول کر دینے سے شاید وہ انکار کردے۔موجودہ حالات کے پیش نظر قرآن وحدیث سے جواب مرحمت فرمائیں۔ امین الدین احمد، ہزاری باغ روڈ ، برہی، ہزاری باغ، بہار

فتاویٰ #2605

(۱) سال پوراہونے پر اس کا جتنا نقد بچے اس کا چالیسواں حصہ ادا کردے۔ مثلا تین لاکھ اس کا جمع ہے اور سال پورا ہونے پر بھی یہ تین لاکھ رہے گا تو تین لاکھ کی زکات ساڑھے سات ہزار روپے ادا کرے۔ تین لاکھ روپے جمع کرنے پر ہر ماہ اس کو جو رقم ملی ہے اور خرچ ہو گئی اس پر زکات نہیں۔ البتہ چوں کہ تین سال پورا ہونے سے پہلے یہ رقم بینک سے نکال نہیں سکتا اس لیے سال اول اور دوم کی زکات ادا کرنا فورا ضروری نہیں۔ جب روپیہ وصول کرے گا اس وقت گزشتہ دنوں کی بھی زکات فورا ادا کرنا ضروری ہوگا جس میں اس پر بار پڑے گا، اس لیے وہ ہر سال کی زکات اسی سال میں نکال دے۔ واللہ تعالی اعلم (۲) اگر یہ عورت مالک نصاب نہیں تو اسے زکات اور صدقۂ فطر کی رقوم دینا جائز ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ اسے بتایا جائے کہ یہ زکات اور فطرہ کی رقم ہے۔ بہ نیت زکات دےدینا کافی ہے۔ مگر یہ تحقیق کر لیجیے کہ مالک نصاب نہیں اگر اس کے پاس اس کی ملکیت کے سونے چاندی کے زیورات اتنے ہوں کہ وہ مالک نصاب ہو جائے تو پھر اسے زکات اور فطرہ کی رقم دینا جائز نہیں۔ واللہ تعالی اعلم ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved