21 November, 2024


دارالاِفتاء


زید اگر کسی غریب کو روپیہ اس نیت سے دے دے کہ بعد میں فیصلہ کر وں گا کہ یہ دیا ہوا روپیہ بمد زکات رہے گا، یا خیرات، اور بعد میں اس کا فیصلہ کرے کہ دیا ہوا روپیہ بمد زکات رہے گا ، ایسا کرنا درست ہوگا یا نہیں؟ محمد یسین اشرفی، محلہ پورہ صوفی، مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ، یوپی- ۲۲؍ محرم ۱۴۱۲ھ

فتاویٰ #2595

اس صورت میں زکات ادا نہ ہوگی۔ [حضور شارح بخاری -رحمۃ اللہ تعالی علیہ – نے اس فتوی میں صرف ایک صورت کا حکم تحریر فرمایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زید نے جو مال غریب کو دیا ہے وہ بعینہ فقیر کی ملکیت میں باقی نہ ہو یعنی خرچ ہو چکا ہو، ممکن ہے کہ آپ نے سائل سے بیان لے کر اس کی تحقیق کر لی ہو؛ اس لیے صرف اسی ایک صورت کا حکم ذکر کیا۔ ہم اپنے دینی بھائیوں کی معلومات کے لیے اس مسئلے کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ زید نے جو مال غریب کو دیا ہے اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: (۱) زید کو معلوم ہے کہ وہ مال بعینہ اس غریب کے پاس موجود ہے۔ (۲) وہ مال اس غریب کے پاس سے ہلاک ہو گیا، یا اس نے اسے خرچ کر لیا اور اپنے استعمال میں لے آیا۔ (۳) کچھ بھی علم نہیں کہ وہ مال اس غریب کے پاس بعینہ موجود ہے یا ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری صورت کا حکم وہی ہے جو شارح بخاری -رحمۃ اللہ تعالی علیہ – نے تحریر فرمایا ہے کہ اس صورت میں زکات ادا نہ ہوگی۔ اور پہلی صورت میں حکم یہ ہے کہ زکات ادا ہو جائے گی، فقہاے کرام کی عبارت ’’إذا دفع إلی الفقیر بلا نیۃ ثم نواہ عن الزکاۃ فإن کان المال قائما في ید الفقیر جاز‘‘ . کا مطلب یہی ہے۔ تیسری صورت جب کچھ معلوم نہ ہو تو احتیاط اس میں ہے کہ دوبارہ زکات ادا کرے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: وأما شرط أدائہا فنیۃ مقارنۃ للأداء، أو لعزل ما وجب، ہکذا في الکنز ... ولو قال: ما تصدقت إلی آخر السنۃ فقد نویت عن الزکاۃ لم یجز، کذا فی السراجیۃ... وإذا دفع إلی الفقیر بلا نیۃ ثم نواہ عن الزکاۃ فإن کان المال قائما في ید الفقیر جاز وإلا فلا، کذا فی معراج الدرایۃ، والزاہدي، والبحر الرائق، والعینی وشرح الہدایۃ. [ج:۱،ص: ۱۸۸، کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرھا وصفتھا وشرائطہا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت] تنویر الأبصار میں ہے : (وشرط صحۃ أدائہا نیۃ مقارنۃ) أي للأداء (ولو) کانت المقارنۃ (حکما) کما لو دفع بلا نیۃ ثم نوی والمال قائم في ید الفقیر۔ [ج:۳،ص:۱۸۷، کتاب الزکاۃ، دار الکتب العلمیۃ]] زکات کی ادایگی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مستحق زکات کو دیتے وقت زکات کی نیت ہو، یا اپنے مجموعی مال سے جب روپیہ علاحدہ کرے اس وقت یہ نیت کرلے کہ یہ اتنا روپیہ زکات کا ہے۔ مثلا: کسی کے پاس دس ہزار روپے ہیں اس میں سے ڈھائی سو روپے الگ کیا کہ یہ زکات کے ہیں اب ان ڈھائی سو روپیوں کو کسی کو دیتے وقت زکات کی نیت کی حاجت نہیں علاحدہ کرنے کے وقت جو نیت کی تھی وہ کافی ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved