8 September, 2024


دارالاِفتاء


السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو طلاق دی لیکن اس کے بقول اسے پختہ یقین نہیں ہے کہ اس نے دو بار طلاق دی یا تین بار لیکن ظن غالب ہے کہ تین طلاق دی ہے اور اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ دو دی ہے اور اس اثنا میں ان کے درمیان کوئی تیسرا فرد موجود نہیں تھا براہ کرم اس پر شریعت کا کیا حکم لگتا ہے آیا طلاق ہوگی یا نہیں اور ہو جانے کی صورت میں حلالہ کا حکم ہے بیان فرمادیں۔

فتاویٰ #2217

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الجواب: صورتِ مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق واقع ہونے کا حکم دیا جائے گا ؛ اس لیے کہ پختہ یقین نہ ہونے کی صورت میں ظن غالب پر حکم ہوگا۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : ” في نوادر ابن سماعۃ عن محمّد رحمہ اللہ تعالیٰ: إذا شكّ أنہ طلّق واحدۃ أو ثلاثاً فہي واحدۃ حتّی يستيقن أو يكون أكثر ظنّہ علی خلافہ. فإن قال الزوج عزمت علی أنہا ثلاث ، أوہي عندي علیٰ أنّہا ثلاث ، أضع الأمر علیٰ أشدّہ ، فأخبرہ عدول حضروا ذٰلك المجلس وقالوا:كانت واحدۃ۔ قال: إذا كانوا عدولاً أصدّقہم وآخذ بقولہم.کذا فی الذخیرۃ۔ [الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الطلاق ، الباب الثانی فی إیقاع الطلاق ، الفصل الأول فی الطلاق الصریح ، ج:۱، ص:۳۶۳، دارالفکر، بیروت] المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے : ”وعن ہشام رحمہ اللہ قال:سألت أبا يوسف رحمہ اللہ عن رجل حلف بطلاق امرأتہ ولا يدري بثلاث حلف أو بواحدۃ، قال: يتحرّی الصواب فإن استوى ظنّہ عمل بأشد ذٰلك عليہ. [المحیط البرہانی ،کتاب الطلاق،الفصل الرابع عشر في الشك في إيقاع الطلاق وفي الشك في عدد ما وقع وفي الإيجاب المبہم ، ج:۳، ص:۳۱۷، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت] اب وہ عورت زید کےنکاح سے نکل گئی، اس سےزیدکا نکاح نہیں ہوسکتایہاں تک کہ عدت پوری ہوجانے کے بعدوہ دوسرے مرد سے نکاح کرکے اس سے ہم بستر ہو، پھر وہ شخص اسے طلاق دے دے ،یا مرجائے اور اس کی (2ص:) عدت بھی گزرجائے ، پھروہ چاہیں تو دوبارہ نکاح کرکے ازدواجی زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے : فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوْجًا غَیۡرَہٗؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللہِؕ وَ تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوۡنَ ﴿۲۳۰﴾ [پارہ:۲،البقرۃ:۲،آیت :۲۳۰] ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں(دوبارہ نکاح کرلیں) اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے اوریہ اللہ کی حدیں ہیں جنھیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لیے۔[کنزالایمان]۔ ہدایہ میں ہے : ”وإن کان الطلاق ثلاثا لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بہا ، ثم یطلقہا، أو یموت عنہا“۔[ہدایہ ، کتاب الطلاق ، ج:۲،ص:۳۷۹، مجلس برکات ، جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور] اور حدیث شریف میں ہے،الله كے رسول ﷺنے حضرت رفاعہ بن وہب قرظی کی بیوی سے فرمایا: ”لا ، حتی تذوقي عسیلتہ ویذوق عسیلتکِ“۔[الصحيح لمسلم،باب لا تحل المطلقۃ ثلاثا لمطلقہاحتی تنكح زوجا غيرہ ويطأہا ثم يفارقہا وتنقضی عدّتہا.رقم الحدیث : ۳۵۹۹، ج:۴، ص:۱۵۴، دارالآفاق الجدیدۃ ، بیروت] یعنی تو اپنے پہلے شوہر رفاعہ سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک کہ تو اپنےدوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی کاشہد نہ چکھ لے اوروہ تمہارا شہد نہ چکھ لے۔واللہ تعالیٰ أعلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــہ ساجد علی المصباحی خادم الإفتاء والتدریس بالجامعۃ الأشرفیۃ، مبارک فور،أعظم جرہ ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۴۴ھ/۱۵؍فروری ۲۰۲۳ء،چہارشنبہ

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved