8 September, 2024


دارالاِفتاء


امام معین برابر وقت مقررہ پر نماز پڑھاتا ہے ابھی ایک منٹ باقی تھا کہ فوراً ایک مقتدی اٹھا جو کہ دوسرے گاؤں میں پڑھاتا تھا۔ ہفتہ میں ایک دو روز مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے، بولا کہ چلیے حافظ صاحب نماز پڑھائیے۔ تو امام بولا کہ ابھی ایک منٹ باقی ہے ، ٹائم نہیں ہوا۔وہ مقتدی جبراً نماز پڑھانے لگا ۔ اب کہنا یہ ہے کہ وہ مقتدی جس نے جبراً بلا اجازت نماز پڑھائی اس پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے اور مقتدیوں کی نماز ہوئی یا نہیں؟ مقتدی کی حکومت امام پر ہونا چاہیے یا نہیں؟ جب امام نے مقتدی کو مسئلہ سنایا کہ اس نے بغیر امام کی اجازت کے جبراً نماز پڑھائی اس لیے وہ گنہ گار ہوا، اور امام نے یہ حدیث پیش کی: ألا لا یوم الرجل فی سلطانہ إلا بإذنہ۔ سنانے کے بعد مسجد میں لٹکا دیا گیا۔ تو دوسرے دن کسی مقتدی نے مسئلہ کو غائب کر دیا۔ اور اس مقتدی نے کہا کہ اب اگر مسجد میں اس قسم کا مسئلہ لٹکا یا گیا تو مسئلہ جلا دیں گے۔ اس پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ دوسرے ہفتہ جب اس نے جبراً نماز پڑھائی تو مقرر امام نے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔ حدیث وفقہ کی روشنی میں بتائیں کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ #1953

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اگر یہ نماز پنج گانہ تھی تو ہو گئی۔ پنج گانہ نماز کوئی بھی شخص پڑھا دے ہو جائے گی اگرچہ امام معین کی بلا اجازت ۔ البتہ یہ منع ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا: لا یؤم الرجل فی أہلہ ولا یجلس علی تکریمہ۔ اور اگر یہ نماز جمعہ تھی اور امام شریک ہو گیا تو جمعہ ہو گیا اور اگر امام شریک نہیں ہوا تو جمعہ صحیح نہ ہوا۔ وہ شخص امام کی بلا اجازت نماز پڑھا کر صورت مسئلہ میں فتنہ کا مرتکب ہوا، اور جو شخص مسلمانوں میں فتنہ پھیلائے وہ ضرور فاسق اور فاسق کو امام بنانا جائز نہیں۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ۔ امام نے جو لکھ کر لٹکایا وہ حدیث ہے ۔ اسے جس نے جلانے کو کہا حدیث اور حکم شرع کی توہین کا مرتکب ہوا۔ اس پر توبہ وتجدید ایمان ونکاح لازم ہے اور جس نے غائب کیا اس نے حق چھپایا اور گنہ گار ہوا۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved