8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہماری مسجد میں امام عالم فاضل قاری صوم وصلاۃ کے ساتھ ساتھ پابند شرع بھی ہے اور شرعی اعتبار سے اس میں کوئی عیب نہیں ۔ ہمارے پیر صاحب نذرانہ وصول کرنے یہاں آتے ہیں تو امام سے ذاتی رنجش کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں اور حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں جماعت ہوتی رہتی ہے نماز نہیں پڑھتے، ان کی داڑھی بھی ایک مشت سے کم ہے۔ ایسے پیر کے لیے کیا حکم ہے ؟ کیا اسے پیر بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اور پیر جی کی یہ حرکت شریعت کے خلاف ہے یا نہیں ؟ اس کے باوجود ان کے چند مرید امام کو برا بھلا کہتے ہیں اور پیر کو اچھا۔ ایسے مریدوں کا کیا حکم ہے؟ جمعہ کے دن اسی پیر نے جمعہ کی نماز پڑھائی، امام نے ’’الفتنۃ أشد من القتل‘‘ کی وجہ سے کچھ نہیں کہا لیکن خود اس کے پیچھے جماعت میں صرف کھڑا رہا اور اپنے اغل بغل والوں سے کہا کہ تم لوگوں کی نماز قطع صف کی وجہ سے نہیں ہوئی، کیا یہ صحیح ہے؟

فتاویٰ #1914

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- جب کسی مسجد میں کوئی امام مقرر ہو تو اس کی موجودگی میں بغیر اس کی اجازت کے کسی دوسرے کو امامت کا حق نہیں اگرچہ دوسرا، امام سے علم وفضل ، زہدوتقوی میں امام سے بدرجہاں افضل ہو۔ حدیث میں فرمایا گیا: لا یؤم الرجل في سلطانہ۔ اور جب کہ صورت حال یہ ہے کہ مقررہ امام عالم ہے اور یہ پیر جاہل ہے تو اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس امام کی موجودگی میں یہ پیر امامت کرے ۔ یہ پیر وہاں آنے کے بعد اگر شرعی طور پر مسافر نہیں تو اس پر بھی جماعت واجب ہے، جماعت سے نماز نہیں پڑھتا ، جماعت کے وقت حجرے میں بیٹھا رہتا ہے تو ترک جماعت کی عادت کی وجہ سے وہ فاسق معلن ہو گیا۔ پھر جب وہ داڑھی ایک مشت سے کم رکھتا ہے تو پہلے ہی سے وہ فاسق معلن ہے۔ فاسق معلن کو پیر بنانا جائز نہیں اور اگر بنا چکے ہوں تو بیعت فسخ کرنا واجب ۔ علما نے تحریر فرمایا کہ پیر کی تعظیم واجب اور فاسق کی تعظیم حرام۔ تبیین الحقائق اور شامی وغیرہ میں ہے: وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ تو جب یہ جاہل ہے اور جاہل کو پیر بنانا جائز نہیں ، سخت ممنوع ہے ۔ علما نے لکھا ہے کہ جاہل پیر مسخرہ شیطان ہے۔ جتنے لوگ اس فاسق معلن جاہل پیر سے اب تک مرید ہو چکے ہیں سب پر واجب ہے کہ اس کی بیعت فسخ کر دیں۔ اور کسی جامع شرائط عالم باعمل متقی متدین پیر سے مرید ہوں۔ اس جاہل پیر کے مریدین امام کی برائی بیان کرتے ہیں یہ غیبت ہے کسی مسلمان کی غیبت کرنی حرام وگناہ کبیرہ ہے۔ چہ جاے کہ عالم کی وہ بھی امام کی۔ جب یہ پیر حد شرع سے کم داڑھی رکھنے کی وجہ سے فاسق معلن تھا تو امام کو کسی طرح جائز نہیں تھا کہ اسے جمعہ پڑھانے کی اجازت دیتا۔ اس خصوص میں جھگڑے کی پروا نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ’’ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ١ۚ ‘‘۔ کا یہ مطلب نہیں کہ جاہلوں کے شور وشر کے اندیشے کی وجہ سے گناہ کا ارتکاب کر لے ۔ حکم شرعی پر عمل کی وجہ سے اگر کچھ جاہل خداناترس شورو شر مچائیں تو سارا وبال ان شوروشر مچانے والوں پر ہے، حق کی حمایت کرنے والوں پر گناہ نہیں بلکہ اسے اجر ہے۔ امام نے دوسرا گناہ یہ کیا کہ اس دن اس نے جمعہ نہیں پڑھا جب کہ جمعہ فرض ہے۔ تیسرا جرم اس نے یہ کیا کہ اپنے اغل بغل والوں سے اس نے یہ کہا کہ قطع صف ہونے کی وجہ سے تم لوگوں کی نماز نہیں ہوئی۔ قطع صف حرام ہے مگر قطع کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اب صورت یہ ہوگئی یہ امام خود فاسق معلن ہو گیا۔ اس پر فرض ہے کہ ان سب باتوں سے توبہ کرے اگر امام توبہ کر لے فبہا ورنہ اس کو امامت سے معزول کردیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved