22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) -زید نے مدرسہ اسلامیہ کے صدر ہوتے ہوئے اپنے اور اپنے بیٹے (جو کانگریس پارٹی کے وائس چیرمین تھے) کے وقار کو بڑھانے کی غرض سے سادھوؤں ، پچاریوں کے شیلانیاس کے سلسلے میں نکالے گئے جلوس کے لیے مدرسہ انجمن اسلام کے سامنے استقبالیہ دروازہ قائم کیا اور مع انجمن کے ملازمین کے ہار پھول کے ساتھ جلوس کا خیر مقدم کیا۔ (۲) -زید موصوف قرآن خوانی کے موقع پر آپسی گفتگو میں جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور مغلظات گالیاں بکتے ہیں ، نیز قرآن پاک کی جھوٹی قسم کھانے کے عادی ہیں۔ (۳) -یہ کہ زید موصوف امامت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے انگریزی بال رکھنے کے شوقین ہیں۔ (۴) -زید موصوف نے اپنے بھتیجے کی بیوہ اور یتیم بچوں کی زمین پر ناجائز طور پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے جس کا کیس ہنوز چل رہا ہے۔ مقبوضہ اراضی کے مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں کچہری میں کذب پر مشتمل ثبوت پیش کیے۔ (۵) -زید مدرسہ اسلامیہ انجمن اسلام کے تقریباً بارہ سال سے صدر رہے لیکن اپنے زمانۂ صدارت میں انجمن کے آمد وخرچ کا کوئی حساب نہیں رکھا۔ جس کی وجہ سے قوم نے استعفیٰ کی مانگ کی لیکن موصوف نے کوئی پرواہ نہیں کی جس کی وجہ سے حالات ابتر ہوتے چلے گئے تب بحالت مجبوری صدارت کو چھوڑا مگر بارہ سال کا حساب ذمہ میں باقی ہے جس کی وجہ سے انجمن کی رقم کو غصب کرنے کے مرتکب ہوئے ۔ موصوف کی مذکورہ بالا شرعی واخلاقی خلاف ورزیوں کے سبب بہت سے لوگ ان کی امامت سے خوش نہیں ہیں اور وہ محلے کی مسجد کو چھوڑ کر شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ جب کہ کچھ شر پسند عناصر قرآن وحدیث سے ناواقف چاہتے ہیں کہ زید موصوف سے عید الاضحیٰ کی نماز پڑھوائیں۔ صورت مسئولہ میں کیا زید کی امامت عند الشرع درست ہے؟ جب کہ زید کی امامت سے محلہ کے افراد بھی خوش نہیں ہیں، کیا ایسے شخص کی اقتدا کے لیے مسلمانوں کو مجبور کرنا شرعا جائز ہے۔ جواب باصواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ #1874

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (1- 5) سوال میں جو باتیں درج ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو یہ شخص ایک نہیں کئی وجوہ سے فاسق معلن ہوا، اسے امام بنانا گناہ ، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ اس کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھی گئی ہیں سب کا دہرانا واجب اور آیندہ بھی جو پڑھی جائیں گی ان سب کا دہرانا واجب ہوگا۔ واجب ہے کہ اس شخص کو بلاتاخیر امامت سے علاحدہ کردیا جائے، اراکین پر بھی واجب ہے کہ مسجد کے ایسے ممبران کو علاحدہ کردیں ۔ غنیہ میں ہے: لو قدموا فاسقا یاثمون بناء علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ در مختار میں ہے: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا۔ اسی میں ہے: وینزع وجوبا لو الواقف فغیرہ بالأولی غیر مامون أو عاجزاً أو ظہربہ فسق۔ مسجد کے اراکین اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ وہ مسجد کو اپنی ذاتی ملک بنا لیں اور من مانی چاہے جو کریں بلکہ اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ شریعت کے مطابق مسجد کا انتظام کریں۔ جب وہ شریعت کی پروا نہ کر کے ایک فاسق وفاجر مسلم دشمن کو امام بنائے ہوئے ہیں ،شریعت کے حکم اور مسلمانوں کے جذبات کی انھیں کوئی فکر نہیں تو وہ کسی طرح اس لائق نہیں کہ مسجد کمیٹی کے ممبر رہ سکیں۔ اس امام نے شیلانیاس جلوس کے اعزاز کے لیے مدرسہ پر پھاٹک لگایا ، اسلام اور مسلم دشمن مشرکین کو ہار اور پھول پہنایا، یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ شخص بہت بڑا ناخدا ترس، دین کا دشمن، دنیا دار فاسق ہے۔ شیلانیاس کے جلوس بابری مسجد ڈھاکر وہاں مندر بنانے کے لیے نکلے تھے ۔ یہ کیسا مسلمان ہے کہ مسجد ڈھانے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ان کے اعزاز کے لیے پھاٹک لگایا، انھیں ہار پھول پہنایا۔ اس شخص کا مسلمان ہونا ہی مشتبہ ہے۔ ایک مسلمان سے کبھی اس کی امید نہیں کی جا سکتی کہ مسجد ڈھا کر مندر بنانے کی تائید کرے۔ حیرت ہے کہ ایسے مسلم دشمن شخص کو کیسے امام بنائے رکھا گیا، مسلمانوں پر فرض تھا کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کرتے ، اس سے سلام کلام بند کر دیتے، بیمار پڑتا تو دیکھنے نہ جاتے ،یہ سب نہیں ہوا بلکہ اس کو دینی اعزاز امامت پر برقرار رکھا گیا۔ اراکین کیسے مسلمان ہیں اگر یہ امام ان اراکین میں سے کسی کے گھر کو ڈھاکر مسجد بنانے کی بات کرتا تو اراکین اس کو برداشت نہ کرتے چہ جاے کہ مسجد ڈھاکر مندر بنانے والے کی تائید کر نے والے کو امام بنا رکھا ہے۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں مسجد کی اتنی بھی وقعت نہ رہی جتنی اپنے گھروں کی ہے۔ بہر حال اللہ ورسول کا حکم یہی ہے کہ شیلانیاس کرنے والے، مشرکین کا استقبال کرنے کی وجہ سے یہ امام بد ترین فاسق سخت عذاب جہنم کا مستحق ہوا ۔ اسے امامت سے فوراً معزول کرنا واجب ہے۔ یہ امام ایسا خدا ناترس اور بے باک ہے قرآن مجید کی تلاوت کی مجلس میں گالیاں بکتا ہے ، جھوٹی قسمیں کھاتا ہے۔ بلا وجہ مسلمانوں کو گالی دینا فسق ہے اور جھوٹی قسم کھانا حرام وگناہ۔ قرآن مجید کی تلاوت کی مجلس میں ایسا کرنا حرام در حرام وگناہ در گناہ ۔ اس نے مجبورو بے کس لوگوں کی زمینیں غصب کی ہیں یہ بھی فسق وحرام ۔ کسی کی ناحق زمین غصب کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا: جو کسی کی ایک بالشت زمین لے گا زمین کا اتنا حصہ ساتوں طبق طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا اور ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا۔ [حاشیہ: یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں موجود ہے، مثلاً بخاری، مسلم، مسند امام احمد بن حنبل، مسند ابی داؤد طیالسی، موطا امام مالک، سنن ابی داود وغیرہ۔ بخاری کی الفاظ یہ ہیں: عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ خَاصَمَتْهُ أَرْوَى فِي حَقٍّ زَعَمَتْ أَنَّهُ انْتَقَصَهُ لَهَا إِلَى مَرْوَانَ فَقَال سَعِيدٌ أَنَا أَنْتَقِصُ مِنْ حَقِّهَا شَيْئًا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ : مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ. (ج:۱،ص:۴۵۴، رقم الحدیث:۳۱۹۸، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع ارضين، مجلس البرکات، مبارک پور)۔ اسی میں دوسری روایت کی الفاظ یہ ہیں: عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- : مَنْ أَخَذَ شَيْئًا مِنَ الأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ. (ج:۱،ص:۴۵3، رقم الحدیث:۳۱۹۸، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع ارضين، مجلس البرکات، مبارک پور) محمود علی مشاہدی مصباحی۔] اس ناخدا ترس حامی مشرکین امام پر واجب ہے کہ جتنے دنوں وہ مسجد کا صدر رہا اتنے دنوں کا حساب کتاب بلاتاخیر پیش کرے۔ اس میں کسی قسم کی رو رعایت ہر گز ہرگز نہ کی جائے۔ جو لوگ رو رعایت کریں گے وہ بھی قیامت کے دن خدا کی بارگاہ میں ماخوذ ہوں گے۔ مسجد کا معاملہ ہے تو لوگ ڈھیل دیے ہوئے ہیں اگر کسی کا ذاتی معاملہ ہوتا تو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہوتا۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس ناخدا ترس مسلم دشمن، مشرک دوست فاسق وفاجر امام کو فوراً بلا تاخیر امامت سے علاحدہ کردیں اور جتنے دنوں تک وہ مسجد کا صدر رہا اتنے دنوں کا اس سے فوراً بلا تاخیر حساب لیں اگر نہ دے تو سب مسلمان اس سے میل جول، سلام کلام بند کر دیں۔ ویسے بھی اس مسلم دشمن مشرک دوست شخص سے میل جول، سلام کلام بند کردینا ضروری ہے کہ اس نے مسجد ڈھاکر مندر بنانے کی حمایت کی ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved