----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امام مذکور پر سوال میں جو الزامات لگائے گئے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو واجب ہے کہ فوراً بلا تاخیر اسے امامت سے علاحدہ کردیا جائے۔ اسے امام بنانا گناہ، اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ ان الزامات کی بنا پر امام، بد ترین فاسق ہے، اس لیے کہ وہ فریب بھی دیتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے، اور مال حرام بھی کھاتا ہے۔ جس کی وجہ سے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں گرفتار ہے اور جہنم کا مستحق۔ حدیث میں ہے: لاَ يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْہُ ۔ سنو! کسی مسلمان کا مال حلال نہیں، مگر بہ طیب خاطر اس کی اجازت سے۔ اور یہاں امام مذکور لوگوں سے مختلف کار خیر کے لیے پیسہ وصول کرتا ہے اور ہڑپ کرجاتا ہے۔ بلکہ اگر وہ فی الحال توبہ بھی کرلے جب بھی اس کو امام باقی رکھنا جائز نہیں جب تک اتنی مدت نہ گزر جائے جس میں یہ اطمینان ہوجائے کہ واقعی وہ توبہ پر قائم ہے۔ پھر اس جرم کی توبہ صرف ’’اَستغفر اللہ‘‘ پڑھنے سے نہ ہوگی۔بلکہ یہ ضروری ہے کہ جن جن لوگوں سے جھوٹ بول کر، فریب دےکر، مال وصول کیا ہے اور ہڑپ کرگیا ہے ان سب لوگوں کو یا تو ان کا مال واپس کرے، یا ان سے معاف کرائے۔ اور جو انتقال کرچکے ہیں ان کے وارثین کو بقدرِ حصہ رسدی دے، یا ان سے معاف کرائے۔ خلاصہ یہ کہ امام کو فی الحال معزول کردیا جائے۔ اور اگر وہ بطریقہ شرعیہ اس تفصیل کے ساتھ جو میں نے لکھا ہے، توبہ کرلے تو بھی فوراً امام نہ رکھا جائے جب تک اتنی مدت نہ گزر جائے کہ پورا اطمینان ہوجائے کہ یہ اپنی توبہ پر قائم ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org