8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید محلہ کی ایک جامع مسجد میں امام ہے، مسجد کی طرف سے انھیں معقول مشاہرہ دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ مسجد ہی کے زیر اہتمام ان کی رہائش اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام ہے۔ ان تمام سہولیات کے باوجود امام صاحب مقتدیوں اور محلہ کے لوگوں سے چھپ کر کبھی اپنے بچوں کی تعلیم کے نام پر اور کبھی وعظ و تقریر کے لیے کتابوں کی خریداری کے نام پر رقمیں مانگتے ہیں اور جو نہیں دیتا ہے اسے سخت سست بھی کہتے ہیں۔ بعض لوگوں سے انھوں نے مسجد میں رحل منگانے کے لیے روپیہ لیا اور اپنی ذات پر خرچ کرلیا۔ بعض لوگوں سے کسی غریب لڑکی کی شادی کرانے کا پیسہ لیا اور اسے بھی ہڑپ کر گئے۔ جب ان کی ان حرکتوں کی خبر مؤذن، مسجد کمیٹی کو دینا چاہتا ہے تو اس پر سختی کرتے ہیں اور ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ بہر حال جب مسجد کمیٹی کو امام صاحب کے اس مذموم حرکت کی خبر ملی تو خفیہ انکوائری کرائی، انکوائری میں ساری باتیں درست پائی گئیں۔ حضور والا قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ایسی صورت میں کیا ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہے؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1739

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امام مذکور پر سوال میں جو الزامات لگائے گئے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو واجب ہے کہ فوراً بلا تاخیر اسے امامت سے علاحدہ کردیا جائے۔ اسے امام بنانا گناہ، اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ ان الزامات کی بنا پر امام، بد ترین فاسق ہے، اس لیے کہ وہ فریب بھی دیتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے، اور مال حرام بھی کھاتا ہے۔ جس کی وجہ سے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں گرفتار ہے اور جہنم کا مستحق۔ حدیث میں ہے: لاَ يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْہُ ۔ سنو! کسی مسلمان کا مال حلال نہیں، مگر بہ طیب خاطر اس کی اجازت سے۔ اور یہاں امام مذکور لوگوں سے مختلف کار خیر کے لیے پیسہ وصول کرتا ہے اور ہڑپ کرجاتا ہے۔ بلکہ اگر وہ فی الحال توبہ بھی کرلے جب بھی اس کو امام باقی رکھنا جائز نہیں جب تک اتنی مدت نہ گزر جائے جس میں یہ اطمینان ہوجائے کہ واقعی وہ توبہ پر قائم ہے۔ پھر اس جرم کی توبہ صرف ’’اَستغفر اللہ‘‘ پڑھنے سے نہ ہوگی۔بلکہ یہ ضروری ہے کہ جن جن لوگوں سے جھوٹ بول کر، فریب دےکر، مال وصول کیا ہے اور ہڑپ کرگیا ہے ان سب لوگوں کو یا تو ان کا مال واپس کرے، یا ان سے معاف کرائے۔ اور جو انتقال کرچکے ہیں ان کے وارثین کو بقدرِ حصہ رسدی دے، یا ان سے معاف کرائے۔ خلاصہ یہ کہ امام کو فی الحال معزول کردیا جائے۔ اور اگر وہ بطریقہ شرعیہ اس تفصیل کے ساتھ جو میں نے لکھا ہے، توبہ کرلے تو بھی فوراً امام نہ رکھا جائے جب تک اتنی مدت نہ گزر جائے کہ پورا اطمینان ہوجائے کہ یہ اپنی توبہ پر قائم ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved