----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اگر امام صاحب اپنے لڑکے کی چوری پر راضی ہیں تو وہ بھی گناہ میں اس کے شریک ہیں۔ ارشاد ہے: اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ۔ اور جب امام صاحب خود بھی تنخواہ پاتے ہیں تو ان پر یہ الزام رکھنا کہ وہ چوری کا مال کھاتے ہیں، صحیح نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی کمائی کے پیسوں پر گزارا کرتے ہوں۔ مسلمان کے ساتھ بدگمانی حرام ہے اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب، اور جہاں تک ہوسکے اس کے ہر فعل کو اچھے محمل پر محمول کرنا واجب۔ اور اگر اپنے بیٹے کی چوری پر راضی نہیں اسے ناپسند کرتے ہیں تو بیٹے کی چوری سے انھیں الزام دینا غلط ہے۔ قرآن مجید میں ہے: وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔ ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں لادا جائےگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org