8 September, 2024


دارالاِفتاء


شوافع کی اقتدا میں احناف کی نماز ہوجائےگی یا نہیں،خصوصا جب کہ کسی علاقے میں شوافع کی اکثریت ہو اور احناف کم ہوں، مستقل مسجد بنوانے کی صلاحیت بھی نہ رکھتے ہوں؟ ایک کرم فرما کا کہنا کہ اگر شوافع بدعقیدہ نہ ہوں تو ان کی اقتدا میں نماز درست ہے۔ بیان فرمائیں کہ شریعت کا فیصلہ کیا ہے؟ جزاکم اللہ۔

فتاویٰ #1690

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- شافعی امام، اگر سنی، صحیح العقیدہ ہو، بد عقیدہ، گمراہ، وہابی، صلح کلی وغیرہ نہ ہو تو شافعی امام کے پیچھے احناف کی نماز بلا کراہت صحیح ہے، بشرطےکہ یہ معلوم ہو کہ نماز وطہارت کے مختلف فیہ مسائل میں مذہب حنفی کی رعایت کرتا ہو۔ میں نے دونوں مذہب کی کتابیں دیکھیں، شافعی حضرات جس طرح نماز پڑھتے ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنا پر مذہبِ حنفی میں ان کی نماز فاسد ہوتی ہو، مثلاً کانوں تک ہاتھ لےجانا، (احناف کے نزیک) صرف کندھوں تک لےجانا،(شوافع کے نزدیک) تکبیر تحریمہ کے وقت اور حالت قیام میں سینے کے نیچے ہاتھ باندھنا، بلند آواز سےبسم اللہ شریف پڑھنا، آمین پڑھنا، جلسہ استراحت کرنا، یا نماز فجر میں قنوت پڑھنا۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں جو حنفی مذہب میں مفسد صلاۃ ہو۔ ہمارے علما نے تصریح فرمائی کہ اگر شافعی امام، نماز فجر میں قنوت پڑھے تو حنفی مقتدی نہ پڑھے بلکہ ہاتھ لٹکائے ہوئے اتنی دیر چپ چاپ کھڑا رہے۔ یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ بھی مفسد نماز نہیں۔ ہاں! پانی کی نجاست و طہارت اور وضو اور وضو کے نواقض میں ایسے اختلافات ہیں کہ بعض صورتوں میں احناف کے یہاں وضو صحیح نہیں ہوگا، بدن ناپاک ہوجائےگا اور وضو ٹوٹ جائےگا اور شوافع کے یہاں درست ہے۔ مثلاً دہ در دہ سے کم میں وضو کیا تو احناف کے نزدیک وضو نہ ہوا ؛کہ دہ در دہ سے کم پانی سے وضو کرنے میں ہاتھ ڈالتے ہی پانی مستعمل ہوجائےگا اور ماے مستعمل سے وضو صحیح نہیں۔ اسی طرح دہ در دہ سے کم پانی میں کوئی نجاست پڑی، مثلاً پیشاب، اور نجاست سے پانی کا رنگ، یا بو، یا مزا، نہ بدلا تو شافعی مذہب میں وہ پانی پاک ہے، اس سے وضو بھی جائز اور غسل بھی جائز۔ احناف کے یہاں یہ پانی ناپاک ہے، نہ اس سے وضو جائز، نہ غسل۔ بلکہ بدن یا کپڑے میں جہاں لگےگا اسے ناپاک کردےگا۔ شافعی مذہب میں سر کے مسح کے لیے ایک دو بال پر مسح کرلینا کافی ہے، اور ہمارے یہاں چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔ بدن کے کسی حصے سے خون یا پیپ نکلنے سے شافعی مذہب میں وضو نہیں ٹوٹتا۔ اور ہمارے مذہب میں ٹوٹ جاتا ہے۔ اس تفصیل کو سامنے رکھ کر اگر معلوم ہو کہ شافعی امام، مذہب حنفی کی رعایت کرتا ہے، یعنی وہ دہ در دہ سے کم پانی سے وضو نہیں کرتا اور نہ ایسے پانی سے کرتا ہے جس میں کوئی نجاست پڑی اور وہ دہ در دہ سے کم ہو، اور وضو میں کم از کم چوتھائی سر کا مسح کرتا ہو، نیز اس کے بدن یا کپڑے پر خون، منی، مذی بقدر درہم نہ لگی ہو، تو ایسے شافعی امام کے پیچھے نماز، بلا کراہت جائز ہے۔ خواہ وہاں حنفی امام ملتا ہو یا نہ ملتا ہو۔ حنفی اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ مذہب حنفی کی رعایت نہیں کرتا تو اس کے پیچھے نماز صحیح نہیں۔ اور اگر کچھ نہ معلوم ہو کہ رعایت کرتا ہے یا نہیں تو مکروہ ہے،مگر فرض، ذمے سے ساقط ہوجائےگا۔ جہاں احناف کی کوئی مسجد نہ ہو، سب مسجدوں میں شافعی امام ہوں تو پہلی صورت میں احناف بلادغدغہ شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اور دوسری صورت میں ہرگز نہ پڑھیں۔ اور تیسری صورت میں احتراز کرنا چاہیے۔ ہاں پیار و محبت کے ساتھ نیازمندانہ ان ائمہ سے گزارش کی جائے کہ وہ مذکورہ بالا مسائل میں مذہب حنفی کی رعایت کریں۔ امید ہے کہ وہ اتنی بات مان لیں گے۔ در مختار میں ہے: إنْ تَيَقَّنَ الْمُرَاعَاۃَ لَمْ يُكْرَہْ، أَوْ عَدَمَہَا لَمْ يَصِحَّ، وَإِنْ شَكَّ كُرِہَ ۔ اس کے تحت شامی میں ہے: ھَذَا ھُوَ الْمُعْتَمَدُ، ( قَوْلُہُ إنْ تَيَقَّنَ الْمُرَاعَاۃَ لَمْ يُكْرَہْ إلَخْ ) أَيْ الْمُرَاعَاۃُ فِي الْفَرَائِضِ مِنْ شُرُوطٍ وَأَرْكَانٍ فِي تِلْكَ الصَّلَاۃِ وَإِنْ لَمْ يُرَاعِ الْوَاجِبَاتِ وَالسُّنَنَ، كَمَا ھُوَ ظاھِرُ سِيَاقِ كَلَامِ الْبَحْرِ، وَظَاھِرُ كَلَامِ شَرْحِ الْمُنْيَۃِ أَيْضًا، اھ ملخصا۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved