22 December, 2024


دارالاِفتاء


ہماری مسجد کے امام جو خود کو سنی مسلم کہلواتے ہیں، اور مسجد سنیوں کی ہے، یہاں تقریباً ایک سو بیس سال سے سنی امام امامت کرتے رہے، اور پنج گانہ نماز کے بعد فاتحہ اور دعاے ثانی کے پابند تھے، نیز گیارہویں شریف، بارہویں شریف اور موے مبارک کی زیارت ہوتی رہی اور صلاۃ و سلام بھی ہوتا رہا۔ اب چند سال سے جدید امام نے فاتحہ، دعاے ثانی اور صلاۃ و سلام پر عمل کرنا بند کردیا ہے۔ اور اس کا انکار کرتے ہیں، لہذا مسجد کے لیے سنی امام کا ہونا ضروری ہے یانہیں؟

فتاویٰ #1679

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- سنی مسجد کے لیے سنی امام کا ہونا قطعاً ضروری ہے، غیر سنی امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ امام جس نے دعاے ثانی بند کردی ہے، وہ سنی نہیں، یقیناً وہابی ہے، دعاے ثانی اور فاتحہ کوناجائز کہنا وہابیوں کا مذہب ہے۔ وہابی امام کے پیچھے نماز قطعاً نہیں ہوتی۔ اس امام کو فوراً امامت سے علاحدہ کردیا جائے، اس کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھی ہیں، سب کی قضا کی جائے۔ سنی وہ مسلمان ہے جس کا عقیدہ و عمل اہل سنت و جماعت کے مطابق ہو۔ مثلاً وہ خود گستاخ رسول نہ ہو، اور گستاخان رسول کو امام و پیشوا نہ جانتا ہو۔ میلاد شریف، نیاز، قیام، فاتحہ اور دعاے ثانی وغیرہ کو حرام نہ جانتا ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved