8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید نے جمعہ کی نماز پہلی رکعت میں بعد فاتحہ سورۂ رحمٰن کی تلاوت کی اور ’’ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ۰۰۱۴ وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍۚ۰۰۱۵ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۰۰۱۶ ‘‘ تک تلاوت کر کے رکوع وسجود کے ذریعہ رکعت پوری کی اوردوسری رکعت میں بعد فاتحہ رب المشرقین ورب پر بھول گیا اور تین مرتبہ اتنا الفاظ دہرایا پھر اوپر کی آیت گذشتہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ سے شروع کی اور اسی آیت پر آکر یعنی ’’ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِۚ۰۰۱۷ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۰۰۱۸ ‘‘پر پہنچ کر رکوع وسجود کر کے نماز پوری کی ۔ بعد سلام بکر نے کہا کہ امام صاحب کیا نماز ہو گئی جب کہ دوسری رکعت میں آپ بھول گئے اور تین مرتبہ اسی ایک الفاظ ’’رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ ‘‘ کو دہراتے رہے بعدہ یاد داشت کے لیے اوپر سے آپ نے تلاوت کی اس حساب سے میرے خیال میں نماز نہیں ہوئی کیوں کہ آپ نے نہ تو تین آیت تلاوت کی اور نہ ہی سجدۂ سہو کیا اس پر زید نے کہا کہ تم کو مسئلہ کیا معلوم نماز ہو گئی۔ اب آپ سے التماس ہے کہ اس مسئلہ میں جو صحیح ہو ارسال فرمائیں۔

فتاویٰ #1578

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: صورت مسئولہ میں نماز بلا کراہت ہو گئی، نماز میں قرآن مجید کے کلمات کی تکرار سے نماز فاسد نہیں ہوتی اسی طرح اگر دوسری رکعت میں پہلی رکعت میں پڑھی ہوئی سورت یا آیتوں کو پڑھ دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہ ہوگی۔ البتہ بلا کسی عذر کے پہلی رکعت میں پڑھی ہوئی آیت یا سورت کو [دوسری رکعت میں]پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے جس کا حاصل خلاف اولیٰ اور بضرورت ہو تو مکروتنزیہی بھی نہیں۔ جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے کہ امام بھول گیا تھا آگے آیت یاد آنے کے لیے اوپر سے پڑھا قراءت واجب کی مقدار سے کچھ زائد ہو گئی۔ اس لیے کہ اس نے ’’ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ ‘‘سے لے کر ’’ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِۚ۰۰۱۷ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۰۰۱۸ ‘‘ تک پڑھا۔ یہ چار آیتیں ہو گئیں اور اگر پہلی رکعت میں پڑھی ہوئی دو آیتوں کو شمار نہ کیا جائے تو بھی بقدر واجب قراءت ہوگئی اس لیے کہ واجب تین چھوٹی آیتوں کا پڑھنا ہے۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ماقام مقامہا وہو ثلاث آیات قصار نحو’’ ثُمَّ نَظَرَۙ۰۰۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَۙ۰۰۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَۙ۰۰۲۳ ‘‘۔ وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصارا۔ اس کے تحت شامی میں ہے: وہی ثلاثون حرفا فلو قرأ أیۃ طویلۃ قدر ثلثین حرفا یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات۔ علامہ شامی کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں تیس حرف ہیں تو اگر کسی نے ایک ایسی لمبی آیت پڑھی جس میں تیس حرف ہوں تو اس نے تین آیتوں کی مقدار پڑھ لیا۔ اس پر مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے جد الممتار میں فرمایا کہ اگر ان حروف کا اعتبار ہو جو پڑھے جاتے ہیں تو انتیس حرف ہیں اس لیے کہ میم مشدد دو حرف ہیں اور وَ اسْتَكْبَرَکا ہمزہ شمار نہ ہوگا اس لیے اقرب إلی الصواب یہ ہے کہ چھبیس حروف ہیں اس لیے کہ عند التحقیق مشدد ایک حرف ہے اور یہی ظاہر ہے اس لیے کہ یہاں نظر تلاوت پر ہے پھر بعد میں تحقیق فرمائی کہ آیات کریمہ ’’ وَ الْفَجْرِۙ۰۰۱ وَ لَيَالٍ عَشْرٍۙ۰۰۲ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِۙ۰۰۳ ‘‘ میں پچیس حرف ہیں تو حکم یہ ہونا چاہیے کہ اگر ایک یا دو ایسی آیتیں پڑھ دیں جن میں پچیس حروف ہوں تو تین چھوٹی آیتوں کی مقدار ہوگئی۔ اور یہاں دونوں آیتیں ملا کر چالیس حرف ہو گئے اس لیے نماز بلا کراہت ہوگئی۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved