8 September, 2024


دارالاِفتاء


ماہنامہ اشرفیہ بابت ماہ جولائی میں سائل نے سنت کی نیت کا تین طریقہ ذکر کیا تھا۔ (۱) نیت کرتا ہوں میں دو یا چار رکعت نماز سنت رسول اللہ ﷺ کی واسطے اللہ تعالی کے میرا منہ کعبہ شریف کی طرف۔ آپ نے اس طریقہ کو ناقص لکھا ہے ۔ چوں کہ عوام ہمیشہ سے اسی طرح نیت کرتے آئے ہیں اس لیے کچھ لوگوں نے عوام کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ خصوصاً دیوبندی برادری اسے بہت اچھال رہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ناقص اس لیے کہا کہ اس میں ’’سنت رسول اللہ ‘‘ کہا گیا ہے اور یہ کہنا جائز نہیں جیسا کہ ہمارا مذہب ہے۔ ہم پہلے سے سنیوں کو منع کرتے تھے۔ مگر سنی اپنی ضد کی وجہ سے نہیں مانتے تھے لیکن اب ان کے مفتی صاحب نے بھی ہماری تائید کردی کہ ’’سنت رسول اللہ‘‘ کہنا ناقص ہے۔

فتاویٰ #1559

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: میں معصوم نہیں ہوں انسان ہی ہوں مجھ سے خطا بھی ہو سکتی ہے اور بھول چوک بھی۔ اس سے سواے حضرات انبیا کرام وملائکہ عظام علیہم السلام کے کون بچا ہے؟ لیکن یہ مسئلہ میں نے بالکل صحیح لکھا ہے، اس میں مجھ سے نہ کوئی غلطی ہوئی ہے نہ نسیان، رہ گیا دیوبندیوں یا دیوبندیوں کے در انداز سنی بننے والے بعض مولویوں کا یہ پروپیگنڈہ کہ میں نے اس کو اس بنا پر ناقص کہا ہے کہ اس میں ’’سنت رسول اللہ‘‘ ہے یہ گمراہ گری ہے، فریب دہی، ابلہ فریبی ہے۔ دیوبندیوں سے اس کی کوئی شکایت نہیں ان کے بارے میں تو تجربہ ہے کہ اہل سنت وجماعت کے جتنے بڑے دشمن یہ ہیں دنیا میں کوئی بھی اتنا بڑا دشمن نہیں۔ نہ نصاری، نہ یہود، نہ ہندو، نہ رافضی، فریب اور دھوکا دہی پر ان کے پورے مذہب کی بنیاد ہے۔ حیرت اہل سنت پر ہے کہ اس قسم کے موقع پر مجھ سے رابطہ قائم نہیں کرتے۔ اس مسئلہ پر اعتراض کرنے والے سنیں۔ یہ فتوی مبارک پوری یا بھوج پوری زبان میں نہیں لکھا گیا ہے۔ اردو زبان میں لکھا گیا ہے۔ ناقص کے معنی ہیں وہ جس میں کچھ کمی ہو۔ اگر مجھے ’’سنت رسول اللہ ‘‘ کہنے پر اعتراض ہوتا تو میں اسے ناقص نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا کہ اس میں کچھ بھرتی کے الفاظ ہیں۔ (کچھ زائد الفاظ ہیں) ناقص کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ وہ کمی یہ ہے کہ نیت کرنے والے نے یہ نہیں کہا کہ کس وقت کی سنت پڑھ رہا ہوں ظہر کی، یا مغرب کی۔ اگرچہ یہ سنت کی نیت میں ضروری نہیں۔ صحیح یہی ہے کہ بغیر اس کے بھی نیت درست ہے لیکن بہت سے علما نے فرمایا کہ سنت موکدہ کی نیت میں وقت کا تعین ضروری ہے۔ یعنی یہ کہ ظہر کی سنت یا مغرب کی سنت اور یہ قاعدہ مسلم ہے کہ ’’ اگر مذہب صحیح ومفتی بہ کے مطابق کسی ناجائز اور مکروہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے تو اختلاف علما سے بچنا چاہیے‘‘۔ یعنی اس طرح عمل کرنا چاہیے کہ سب کے مذہب پر عمل ہو جائے۔ غنیہ میں ہے: المصلي إذا کان متنفلا سواء کان ذلک النفل سنۃ موکدۃ أو غیرہا یکفیہ مطلق نیۃ الصلاۃ ولا یشترط تعیین ذلک النفل بأنہ سنۃ الفجر مثلا أو تراویح وغیر ذلک، ولکن في التراویح اختلف أي خالف بعض المشائخ المتقدمین أنہم قالوا: الأصح أنہ أي فعل التراویح لا یجوز مطلق النیۃ بل لا بد من تعیینہا۔ والمذکور في فتاوی قاضي خاں أن الاختلاف في التراویح وفي السنن۔ نمازی اگر نفل پڑھ رہا ہو چاہے یہ سنت موکدہ یا اور کوئی نفل ہو اسے مطلق نماز کی نیت کافی ہے اور اس نفل کے لیے اس تعیین کی ضرورت نہیں کہ یہ فجر کی سنت ہے یا تراویح کی یا کچھ اور، لیکن تراویح میں بعض مشائخ متقدمین نے اختلاف کیا انھوں نے کہا: زیادہ صحیح یہ ہے کہ تراویح مطلق نیت سے جائز نہیں بلکہ اس کی تعیین ضروری ہے اور ’’فتاوی قاضی خاں‘‘ میں ہے کہ اختلاف تراویح میں بھی ہے اور سنتوں میں بھی۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ لنفل وسنۃ راتبۃ وتراویح علی المعتمد، إذ تعیینہا بوقوعہا وقت الشروع والتعیین أحوط۔ نفل اور سنت کے لیے اگر چہ وہ موکدہ اور تراویح ہو مذہب معتمد پر مطلق نماز کی نیت کافی ہے اس لیے کہ اس کی تعیین اسی سے ہو جاتی ہے کہ وقت شروع میں ادا ہو رہی ہے اور تعیین میں زیادہ احتیاط ہے۔ اس کے تحت شامی میں ہے: أي لاختلاف التصحیح۔ بحر۔ اس لیے کہ تصحیح میں اختلاف ہے جیسا کہ بحر میں ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ افضل یہی ہے کہ سنت موکدہ کی نیت میں وقت کو بھی ذکر کرے۔ مثلا ظہر کی سنت یا مغرب کی سنت۔ ایک چیز جب دوسرے سے افضل ہوتی ہے تو اس میں بہ نسبت افضل کے کچھ کمی رہتی ہے۔ ورنہ افضل ہونے کے کیا معنی؟ میرے فتوے میں ناقص سے یہی مراد ہے کہ اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے ۔ اگر ’’سنت رسول اللہ‘‘ کہنے پر مجھے اعتراض ہوتا تو میں ناقص نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا کہ اس میں کچھ زائد لفظ آگئے ہیں۔ پھر اگر دیوبندیوں کے مذہب کے مطابق کہتا تو پھر یہ کہتا کہ صحیح نہیں کیوں کہ دیوبندیوں کا مذہب یہی ہے کہ ’’سنت رسول اللہ‘‘ کہنا صحیح نہیں غلط ہے۔ بہر حال نیت میں ’’سنت رسول اللہ‘‘ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جب دیوبندی اسے ناجائز کہتے ہیں تو سنیوں کو ضرور کہنا چاہیے جیسا کہ علما نے لکھا ہے کہ چوں کہ بعض گمراہ فرقے یہ کہتے ہیں کہ حوض میں وضو جائز نہیں تو حوض میں وضو افضل ہے۔ اس لیے کہ کسی جائز چیز کو ناجائز کہنا بہت بڑا جرم ہے ۔ قرآن مجید میں اسے شیطان کے نشانِ قدم کی پیروی کہا گیا ہے ۔ اس صورت میں اس کے جائز ہونے کی تشہیر قولاً وعملاً جتنی زیادہ کی جائے باعث اجر وثواب ہے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved