8 September, 2024


دارالاِفتاء


کیا فرماتے ہیں علماے دین کہ ہم لوگوں نے ایک مسجد تعمیر کی، پہلے وہ ایک پرانی مسجد تھی۔ اب از سر نو بنائی گئی۔ جب مسجد مکمل بن گئی تو زید ایک عالم دین نے قطب نما لگایا تو بتایا مسجد دکھن طرف ایک ڈیڑھ ہاتھ ٹیڑھی ہے یا غالباً دو ہاتھ ،فوراً توڑ دو اس میں نماز قطعا نہیں ہوتی۔ واضح ہو کہ اس بستی کے مسلمانوں میں ایک عجب کش مکش پائی جا رہی ہے تمام مسلمانوں میں دو گروپ سامنے ابھر کر آگئے ہیں۔ خدارا قرآن وحدیث وفقہ کی رو سے مدلل جواب فرمائیں۔

فتاویٰ #1554

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: مکہ معظمہ کے علاوہ دیگر بلاد کے لوگوں کا قبلہ جہت کعبہ ہے ، عین کعبہ نہیں۔ دیگر بلاد کے لوگوں کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا محال ہے۔ جہت کعبہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کعبہ شریف سے پینتالیس درجے دائیں اور ۴۵؍ درجے بائیں اگر منہ ہوگیا تو نماز ہوگئی۔ڈیڑھ دو ہاتھ دیوار کے دب جانے سے جہت کعبہ سے انحراف نہ ہوگا۔ اس لیے اس مسجد میں نماز بلا کراہت درست ہے پھر قطب نما سے جہت مغرب معلوم ہوگی، عین کعبہ نہیں معلوم ہوسکتا۔ گورکھپور کا قبلہ جہت مغرب سے تقریبا ڈھائی تین درجے مختلف ہے۔ اگر ان ڈھائی تین درجے کی رعایت کر کے بھی مسجد بنائی جائے تو بھی عین کعبہ کی طرف منہ کرنا مشکل ہوگا اس لیے اس مسجد میں بلا دغدغہ نماز پڑھیں۔ در مختار میں ہے: ولغیر المکي إصابۃ جہتہا۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved