بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: پہلی بات یہ ہے کہ یہ قول مرجوح ہے کہ قد قامت الصلاۃ کے وقت نماز شروع کردے، تنویر الابصار میں صرف اسی قول کو تحریر کیا لیکن اس کے بعد در مختار میں فرمایا: ولو أخر حتى أتمها لا بأس به إجماعا وهو قول الثاني والثلاثة وهو أعدل المذاهب كما في شرح المجمع لمصنفه۔ وفي القهستاني معزيا للخلاصة أنه الأصح۔ اسی کے تحت شامی میں ہے وهو أي التأخير المفهوم من قوله ’’أخر‘‘ لأن فيه محافظة على فضيلة المؤذن وإعانة له على الشروع مع الإمام۔ علاوہ ازیں اقامت کا جواب مستحب، ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر شروع کر لے گا تو امام اور مقتدی اقامت کے جواب سے محروم رہیں گے نیز مؤذن امام کے ساتھ نماز شروع نہ کر پائے گا؛ اس لیے مختار اور راجح یہ ہے کہ اقامت پوری ہونے کے بعد امام نماز شروع کرے ۔ائمۂ مذہب کے صحیح ارشاد کے مقابلے میں بہانہ بازی بہت بڑی خطاہے۔ صف سیدھی کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے کہ صف سیدھی کرنے کو بہانہ بنا کر کراہت کا ارتکاب کیا جائے۔ احادیث میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اقدس ﷺ اقامت پوری ہونے کے بعد صفوں کو ملاحظہ فرماتے جب صفیں سیدھی ہو جاتیں تو نماز شروع فرماتے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اقامت کہی جا چکی اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ہماری طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا اپنی صفوں کو سیدھی کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو ، میں تم کو اپنے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔ (حاشیہ: حدثنا أنس بن مالک قال: أقيمت الصلاۃ فأقبل علينا رسول اللہ –صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- بوجہہ، فقال: ’’أقيموا صفوفکم، وتراصوا، فإني أراکم من وراء ظہري‘‘۔ (صحیح البخاري، ج:۱،ص:۱۴۵، رقم الحديث:۷۱۹، کتاب الصلاۃ، باب إقبال الإمام علی الناس عند تسويۃ الصفوف۔ ) محمود علي المشاہدي) اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوئیں پہلی یہ کہ اقامت پوری ہونے کے بعد نماز شروع کی جائے۔ دوسری یہ کہ اقامت کے بعد امام اگر یہ دیکھے کہ صفیں درست نہیں تو صفیں درست کرائے، صفیں درست کرنے کے لیے اقامت اور نماز میں اگرچہ تھوڑی سی تاخیر ہو جائے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org