8 September, 2024


دارالاِفتاء


بعض لوگ خطبہ کی اذان کو منبر کے قریب دینے کو غلط کہتے ہیں اور ساتھ ہی فقہی کتابوں کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ لکھا ہے جیسا کہ فتاوی قاضی خاں ،ج۱، فتاوی عالمگیری،ج۱،ص:۵۵ اور بحر الرائق جلد اول،ص:۲۶۸، فتح القدیر،ج۱،ص:۲۱۵ میں اس کی تصریح موجود ہے جیسا -مسجد کے اندر اذان کے مکروہ ہونے کے سلسلے میں فقہ کی کتابوں کے حوالے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ۔ بعض فقہا ے کرام نے پنج وقتہ نماز کی اذان کے لیے کراہت کی تصریح کی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ پانچ وقت کی اذان سے مقصد مسجد سے باہر والے لوگوں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے گویا پنج وقتہ اذان کو مسجد کے اندر مکروہ بتایا ہے کسی نے خاص خطبہ کی اذان کے سلسلے میں یہ بات نہیں لکھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے پنج وقتی اذان کا دینا بھی مسجد کے اندر فقہاے احناف کے نزدیک مکروہ نہیں بتاتے جیسا کہ علامہ قہستانی جامع الرموز میں فرماتے ہیں: جلالین میں لکھا ہے ’’مسجد کے اندر یا اس کا جو حصہ اس کے حکم میں آتا ہے اذان دینا بلا کراہت جائز ہے البتہ مسجد سے دور نہ دینا چاہیے۔ (جامع الرموز) امام سرخسی علیہ الرحمہ مبسوط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’والمعتبر الأذان الأول بعد زوال الشمس سواء کان علی المنبر أو علی الزوراء۔‘‘ زوال کے بعد کا روبار بندکرنے میں اعتبار پہلی اذان کا ہے خواہ وہ منبر پر دی جائے یا زوراء پر۔ حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : فخرجنا حتی قدمنا بلدنا فکسرنا بیعتنا ثم نضحنا مکانہا واتخذناہا مسجدا فنادینا فیہ بالأذان۔ (نسائی،ج۱،ص:۸۱) پھر ہم لوگ بارگاہ نبوت سے چلے اپنے شہر میں داخل ہوئے اس کے بعد اس جگہ پر آپ کا عطا کردہ پانی چھڑکا اس کے بعد مسجد بنایا اور مسجد میں اذان پکارا۔ اس حدیث میں صحابی رسول حضرت طلق بن علی کا مسجد کے اندر اذان دینا جس طرح مذکور ہے اس طرح خاص مسجد نبوی میں بھی مسجد کے اندر اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ خرج رجل من المسجد بعد ما أذن فیہ فقال أبو ہریرۃ أما ہذا فقد عصی أبا القاسم ﷺ۔ (رواہ مسلم، مشکوۃ،ج۱،ص:۹۷، ترمذی،ج۱،ص:۳۸) ایک آدمی مسجد نبوی سے اس وقت نکلا جب کہ اس کے اندر اذان دی گئی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے حضور ﷺ کی نافرمانی کی کہ اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکل گیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ، علامہ داؤدی کا بیان نقل فرماتے ہیں، داؤدی نے نقل کیا ہے کہ دور عثمانی سے پہلے اذان مسجد کے فرش سے ہوتی تھی۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں ’’جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت آیا تو انھوں نے اپنے قریب سامنے اذان دینے کا حکم فرمایا جیسا کہ آں حضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب سے مؤذن اذان دیتا تھا ۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی تحریر فرماتے ہیں ’’حسن بن زیاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ناقل ہیں کہ کاروبار بندکرنے میں پہلی بار والی اذان کا اعتبار ہوگا کیوں کہ منبر والی اذان کی شرط لگائی جائے تو سنت کی ادایگی اور خطبہ کا سننا چھوٹ جائے گا بلکہ کبھی جمعہ بھی فوت ہو جائے گا۔ نیز علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھ ) اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القران‘‘ ج۱۸،ص:۱۰۱، مطبوعہ دار التراث العلمی، بیروت میں علامہ ابن عربی (متوفی ۵۴۳ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے فرماتے ہیں ’’پہلی اذان نو ایجاد ہے ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو جاری کیا ہے مدینہ کے وسیع ہو جانے اور آبادی کے بڑھ جانے کے سبب سے تاکہ لوگ خطبہ کی حاضری کے لیے تیار ہو جائیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسجد کی اذان سے پہلے بازار میں آواز لگوادیتے تھے تاکہ لوگ بازار سے اٹھ کر آجائیں تب مسجد میں اذان ہوتی تھی۔ مندرجہ بالا حوالہ سے معلوم ہوتا ہے منبر کے نزدیک مسجد کے اندر اذان دینا جائز ہے۔ تو مسجد میں منبر کے نزدیک خطبے کی اذان دینا کیوں مکروہ ہوا؟ جب کہ مسجد کے اندر اذان دینا متعدد فقہا اور حدیث شریف سے ثابت ہے۔ علماو مفتیان دین مذکورہ بالا حوالے کو دیکھتے ہوئے خطبہ کی اذان کے لیے کیا حکم صادر فرماتے ہیں ؟ براے کرم صحیح وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں اور ملت اسلامیہ کے آپسی اختلاف اور اندرونی کش مکش کو دور کریں۔

فتاویٰ #1492

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: حضور اقدس ﷺ اور حضرت صدیق اکبر وفاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ابتداے خلافت تک جمعہ کے لیے صرف ایک ہی اذان ہوتی تھی جو خطبہ کے وقت خطبہ سے پہلے مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی جیسا کہ ابو داؤد میں ہے: عن السائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ. وفی روایۃ وعلي بالکوفۃ۔ جب جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی اور ایسے ہی حضرت ابو بکر وعمر کے زمانے میں ہوتا تھا ۔ اور ایسے ہی حضرت علی کے زمانے میں تھا۔ اسی میں دوسری روایت میں یہ زائد ہے کہ جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بازار میں مقام زوراء پر ایک اذان کا اضافہ کیا۔ اس سے ثابت کہ خطبہ کی اذان عہد رسالت وعہد خلافت میں مسجد کے باہر، مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ کہیں کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی مذکور نہیں کہ خطبہ کی اذان عہد رسالت یا عہد خلافت میں کبھی بھی مسجد کے اندر منبر کے متصل خطیب کے سامنے ہوئی ہو۔ اگر مسجد میں اذان دینا جائز ہوتا تو ایک دو بار ہی سہی بیان جواز کے لیے مسجد کے اندر ان مبارک عہدوں میں اذان دلوائی بھی جاتی۔ ہمیشہ پوری پابندی کے ساتھ عہد رسالت وخلافت میں اذان خطبہ کا مسجد کے باہر ہونا اس کی دلیل ہے کہ اذان خطبہ میں سنت یہی ہے کہ خطیب کے سامنے مسجد کے باہر دی جائے ۔ اس کے برخلاف مسجد کے اندر منبر کے متصل خطیب کے سر پر خطبہ کی اذان دینا سنت کے خلاف بدعت ہے۔ آپ نے چالاکی سے علامہ عینی وغیرہ کی عبارتیں نقل نہیں کیں۔ ان کا ترجمہ نقل کیا۔ ابو داؤد شریف کی حدیث میں لفظ ’’بین یدیہ‘‘ ہے اس کے معنی بھی سامنے کے ہیں اور خود اس روایت کے بموجب مسجد کے دروازے پر دی جانے والی اذان کو ’’بین یدیہ‘‘ اور سامنے کہا گیا۔ جب کہ یہ فاصلہ تقریباً ۹۶؍ ہاتھ تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ’’بین یدیہ‘‘ وسامنے کا مطلب یہ نہیں کہ منبر سے چپکے ہوئے اذان دی جائے۔ آپ نے جو عبارتیں نقل کی ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ ’’اذان ہوئی‘‘ یہ اس کو مستلزم نہیں کہ مسجد کے اندر اذان ہوئی اس معنی کر کے کہ مسجد میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مقرر ہے وہاں ہوئی، ممبئی وغیرہ میں جاکر دیکھ لیجیے اذان کے لیے داخلہ کے دروازہ پر مئذنہ بنا ہوتا ہے وہاں اذان ہوتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ فلاں مسجد میں اذان ہوئی یہاں بحث اس میں نہیں کہ مسجد کے حدود میں اذان دینا منع ہے بلکہ بحث یہ ہے کہ جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں معین ہے وہاں اذان دینا مکروہ ہے۔ آپ نے اپنے حریف کی بات بھی نہیں سمجھی اور الٹے سیدھے اعتراضات کر نے لگے۔ آپ نے لکھا ہے مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ لکھا ہے جیسا کہ فتاوی قاضی خاں ،ج۱،ص:۷۸ آخر تک۔ حالاں کہ ہم اہل سنت میں سے کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ فتاوی قاضی خاں یا عالم گیری یا بحر الرائق میں مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ لکھا ہے اور نہ ان کتابوں میں کراہت کی تصریح ہے ہاں ممانعت مذکور ہے ان سب میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ ہمارے علما نے یہی فرمایاہے کہ ان کتابوں میں یہی ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس سے کراہت ثابت ہے کیوں کہ ادنی درجۂ ممانعت کراہت ہے۔ ہم نے یہ ضرور کہا ہے ، لکھا ہے کہ فتح القدیر خاص باب جمعہ میں لکھا ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے۔ لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ اور ہم نے یہ ضرور کہا اور لکھا ہے کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ اور اسے اذان پنج گانہ کے ساتھ خاص کرنا تخصیص بلا دلیل ہے، یہ ارشادات اپنے عموم واطلاقات کے اعتبار سے اذان خطبہ کو بھی ضرور شامل ۔ اس لیے پنج گانہ اذانوں کی طرح [مسجد کے اندر] خطبہ کی اذان دینا بھی مکروہ اور ممنوع ہے۔ زمانۂ ماضی کے مشہور عالم مولوی عبد الحی لکھنوی عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں: قولہ: بین یدیہ: أي مستقبل الإمام في المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني۔ ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی سامنے کے ہیں جو داخل وخارج مسجد دونوں کو عام ہے اور اذان میں سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو۔ بقیہ وسواس اور شبہات اور بے بنیاد استدلال کا سلسلہ نہ کوئی روک سکتا ہے نہ رک سکتا ہے اور اب جب کہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سنیوں کا مذہب الگ ہے دیوبندیوں کا الگ تو آپ کیوں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم آپ کا مذہب اختیار کریں۔ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِؒ۰۰۶ ۔ تمھیں تمھارا دین اور مجھے میرا دین۔ اور اگر واقعی تسلی وتشفی چاہتے ہیں تو صرف دو کتابیں دیکھ لیجیے (۱) اذان خطبہ کہاں ہو؟ (۲) تنقید بر محل۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved