8 September, 2024


دارالاِفتاء


فرقۂ ملعونہ وہابیہ اذان کے خطبہ کے متعلق پہلے ’’خطیب کے آگے اور خطیب کے سامنے‘‘ کے لفظوں سے استدلال کرتے کرتے ناک گھستے رہے مگر علماے اہل سنت کے مبرہن دلائل کے آگے کچھ نہ چلی تو اب پاس، قریب اور نزدیک آواز سے اپنا مقصد باطل اور مطلب فاسد، لوگوں میں پھیلا کر سنت سے دور کر رہے ہیں، چناں چہ اس سلسلے میں گمراہ گروں نے ’’مہو چھاونی‘‘ کا ایک فتوی شائع کیا ہے جس میں اس قسم کی بکواس کی گئی ہے۔ فتوی کی فوٹو کاپی ساتھ میں حاضر خدمت ہے۔ اس فتوی کا علمی تحقیقی اور تفصیلی جائزہ لے کر تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ #1491

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: باطل پرستوں کا یہی حال ہے کہ پہلے وہ اچھلتے کودتے ہیں اور جب ان کی گرفت کی جاتی ہے تو اس گلی سے بھاگ کر دوسری گلی میں جاتے ہیں۔ اب تک ان کا سارا زور ’’بین یدیہ‘‘ پر تھا اور جب ابو داؤد شریف کی حدیث میں دکھا دیا گیا کہ اس میں ’’بین یدیہ‘‘ بھی ہے اور ’’علی باب المسجد ‘‘ بھی ہے تو یہ اذان حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین کے زمانے میں ان حضرات کے سامنے مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی ۔ حضور اقدس ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد کریم سو ہاتھ لمبی اور سو ہاتھ چوڑی تھی تو منبر اور مئذنہ کے ما بین تقریباً ۹۶؍ ہاتھ کا فاصلہ ضرور تھا تو معلوم ہوا کہ ’’بین یدیہ‘‘ اور سامنے کا مطلب یہ نہیں کہ منبر کے متصل خطیب کے سر پر ہو تو عاجز آکر ’’عند‘‘ کا سہارا لیا ، لیکن ان غریبوں کو معلوم نہیں کہ ’’بین یدیہ‘‘ کی طرح ’’عند‘‘ بھی کتنا وسیع ہے۔ دوسروں کو تو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ شرعی احکام اور حقائق سے ناواقف ہیں مگر ان شرعی حقائق سے واقفیت کے مدعیوں کو قرآن مجید کے ترجمے کی بھی تمیز نہیں ان سے کیا خطاب کریں اپنے ناواقف عوام کی تفہیم کے لیے عرض ہے، ارشاد ہے: فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ ۔ عرفات سے واپسی کے بعد مشعر حرام کے پاس اللہ کی یاد کرو۔ مشعر حرام مزدلفہ کے آخر میں ایک پہاڑ کا نام ہے جسے قزح کہتے ہیں۔ جلالین میں ہے: ہو جبل في اٰخر المزدلفۃ یقال قزح۔ یہ مزدلفہ کے آخر میں ایک پہاڑ ہے جسے قزح کہتے ہیں۔ مدارک میں ہے: ہو قزح وہو جبل الذي یقف علیہ الإمام۔( مدارک التنزیل، فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ ۔[سورۃ البقرۃ،آيت: ۱۹۸]) یہ وہ پہاڑ ہے جس پر امام وقوف کرتا ہے۔ حالاں کہ خاص مشعر حرام کے متصل مل کر کھڑا ہونا ضروری نہیں۔ علما فرماتے ہیں: پورا مزدلفہ موقف ہے اب ان حقائق آگاہوں سے پوچھیے یہ کیسا ’’عند‘‘ ہے جو میلوں پھیلا ہوا ہے اور اتنے لمبے چوڑے میدان کو شامل ہے جس میں بیک وقت لاکھوں لاکھ حجاج سما جاتے ہیں۔ اسی سورہ بقرہ میں ایک اور جگہ فرمایا: وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ١ۚ ۔ جب تک وہ تم سے مسجد حرام کے نزدیک نہ لڑیں تم بھی ان سے وہاں نہ لڑو۔ مسجد حرام شریف اس مبارک مسجد کا نام ہے جو کعبہ کے ارد گرد بنی ہوئی ہے لیکن ابتدا بقتال یعنی شرعی لڑائی کی ابتدا پورے حرم میں ممنوع ہے ۔ مدارک میں ہے: ’’ فعند المسجد الحرام یقع علی الحرم کلہ‘‘۔ اور حرم کی سب سے قریبی مسجد مکہ معظمہ سے تین میل کی دوری پر ہے، ان اللہ والوں سے کوئی پوچھے یہ کیسا ’’عند‘‘ ہے جو میلوں پھیلا ہوا ہے ۔ بات اصلی یہ ہے کہ ’’عند‘‘ کے معنی نزدیک کے ضرورہیں مگر ہر چیز کی نزدیکی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ وقوف مزدلفہ کے لیے پورا میدان مشعر حرام کے نزدیک ہے ، اور قتال کے لیے پورا حرم مسجد حرام کے نزدیک ہے ۔ ہم یوپی والے کہتے ہیں ’’برہان پور کھنڈوہ کے قریب ہے، بھیونڈی ممبئی کے نزدیک ہے، گاڑی سنگلر کے باہر ہوتی ہے مگر سب بولتے ہیں کہ اسٹیشن کے قریب ہے۔ اذان کے معاملہ میں خاص رمز یہ ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینا منع ہے، تمام فقہا نے تصریح کی ہے۔ لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ نظم امام زندویستی، قہستانی پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ تو پوری مسجد اذان دیے جانے کی جگہ نہیں اب ’’عند المنبر‘‘ کا مطلب یہ ہوا کہ جو جگہ اذان کی ہے ان جگہوں کے اعتبار سے جو جگہ منبر کے قریب ہو وہاں اذان دی جائے۔ اور آپ ناپ لیں کہ بیرون مسجد میں جو جگہ جہاں تجویز کریں سب سے قریب وہی جگہ ہوگی جو خطیب کے سامنے ہوگی۔ پھر ان اللہ والوں سے پوچھو کہ جب ابو داؤد شریف میں یہ حدیث صحیح موجود ہے: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رضي اللہ تعالی عنہما حضور اقدس ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی ۔ اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا ۔ تو کیا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اور یہ فقہا اور خود حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اس حدیث سے واقف نہیں تھے کہ اس کے خلاف فتوی دیں۔ یہ جرأت دیوبندی تو کر سکتے ہیں کوئی مسلمان نہیں کر سکتا اور اگر بالفرض کوئی فقیہ کوئی ولی حدیث کی نص صریح کے خلاف فتوی دے تو اس کا فتوی قابل قبول نہیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved