8 September, 2024


دارالاِفتاء


اذان میں ترنم جائز ہے کہ نہیں اور ترنم کی کیا تعریف ہے اور اذان دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

فتاویٰ #1463

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: (۱) ترنم کا مادہ ’’رنم‘‘ ہے جو سمع یسمع سے آتا ہے اس کے معنی ہیں خوش آوازی سے گایا۔ ’’ترنم‘‘ باب تفعل سے ہے اس کا معنی ہے بہ تکلف آواز اچھی بنا کر گانا۔ اردو میں اس کا معنی اچھی لَے کے ساتھ گانا۔ اذان میں قواعد موسیقی کی پابندی کے ساتھ ترنم ممنوع ہے۔ بخاری میں ہے حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفۂ راشد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مؤذن کو لَے اور نغمے کے ساتھ اذان دیتے ہوئے سنا تو فرمایا : أذن أذانا سمحا وإلا فاعتزلنا۔ سیدھی سادھی اذان دے ورنہ ہم سے الگ ہوجا۔ مگر قواعد موسیقی کی پابندی کے بغیر اپنے نفس پر مشقت ڈالے بغیر جہاں تک ہو سکے بلند آواز سے اذان دینا مسنون ہے۔ حدیث میں ہے: فارفع صوتک بالنداء۔ اذان میں اپنی آواز بلند کر۔ آواز بلند کرنے میں ضرورکوئی نہ کوئی لہجہ پیدا ہو جائے گا اور مؤذن خوش آواز ہوگا تو بھلا معلوم ہوگا، اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اہل حجاز جس لہجے میں اذان دیں اس کی پابندی کرے، اسی کو فرمایا گیا: زینوا القران بأصواتکم۔ قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو ۔ اور فرمایا : لیس منا من لم یتغنّ بالقرآن۔ جو قرآن کو اچھی طرح سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بہت ہی خوش آواز تھے ان کی تلاوت سن کر حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: لقد أوتي أبو موسی مزماراً من مزامیر آل داؤد۔ مزمار کے معنی بانسری اور سر کے ہیں، یہاں مراد عمدہ لہجہ اور طرز ہے۔ مراد یہ کہ انھیں داؤد علیہ السلام کی طرز میں سے ایک طرز، ان کے لہجوں میں سے ایک لہجہ عطا کیا گیا۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved