8 September, 2024


دارالاِفتاء


میرے یہاں ایک شخص سنی صحیح العقیدہ ہے نماز، روزہ کا پابند ہے تسبیح وتہلیل کی کثرت کرتا ہے ، نماز کی پابندی کا عالم یہ ہے کہ وقت سے آدھ گھنٹہ پیش تر ہی آکر مسجد میں بیٹھ کر ذکر میں مشغول ہوجاتا ہے مگر وہ شراب کی بھٹی پر ملازمت کیے ہوئے ہے، شراب کی بوتلوں کا شمار کرنا، لکھنا پڑھنا ، بل بنانا، شام کو کُل بِکری کا حساب وکتاب کرنا سب اس کے ذمہ ہے۔ شراب بھٹی پر بنتی بھی ہے اور کھلی ہوئی نیز بند بوتلیں بھی بکتی ہیں۔ دریافت کا اصل مقصد یہ ہے کہ کبھی کبھی مسجد میں امام صاحب کے نہ رہنے پر وہ شخص نماز بھی پڑھا دیتا ہے اور اذان بھی دےدیتا ہے آیا اس کی امامت جائز ہے کہ نہیں، اور جتنی نمازیں اس کی اقتدا میں پڑھی گئیں واجب الاعادہ ہیں کہ نہیں، نیز مسئلہ معلوم ہونے کے بعد اس کی اقتدا جائز ہے کہ نہیں، اس سے چندہ لے کر مسجد مدرسہ یا دیگر دینی کاموں میں خرچ کرنا کیسا ہے؟ شرعاً جواب جلد مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ #1448

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: اس شخص کو نہ امام بنانا جائز نہ اس سے اذان کہلوانا درست اور تقاضاے احتیاط یہی ہے کہ اس کا چندہ بھی نہ لیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved