بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: (۱-۴) نماز اور اذان کے اوقات جو مقرر کر دیے جاتے ہیں وہ لوگوں کی آسانی کے لیے ہے ، اگر سارے نمازی جو اس مسجد میں نماز پڑھنے کے عادی ہیں جمع ہو جائیں تو امام کو خطبہ اور نماز شروع کر دینی چاہیے یہی بہتر ہے ،خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ نمازیوں میں ملازم بھی ہوں جنھیں محدود وقت کے لیے نماز پڑھنے کی اجازت ملتی ہے لیکن اگر کسی اہم ضرورت کی بنا پر تاخیر ہو جائے تو گناہ بھی نہیں ۔ واعظ اور امام کو لازم ہے کہ وہ حاضرین کی ضرورتوں اور ان کے احوال کا خیال کریں، نماز میں قدر مسنون سے زائد قراءت کرنے پر حضور ﷺ نے صحابۂ کرام پر عتاب فرمایا اور ارشاد فرمایا ہے: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن منہم الضعیف والسقیم وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘۔ امام نے ایک مسلمان کو منافق کہا ، امام پر فرض ہے کہ اس مسلمان سے معافی مانگے اور توبہ کرے، اگر امام اس مسلمان سے معافی نہ مانگے تو بہ نہ کرے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے، اسے امامت سے معزول کرنا واجب ہے۔ حدیث میں ہے: ’’سباب المسلم فسوق‘‘۔ غنیہ میں ہے: ’’لو قدموا فاسقا یاثمون بناءً علی أن کراہۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم‘‘۔ در مختار میں ہے: ’’کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org