8 September, 2024


دارالاِفتاء


فتاوی رضویہ جلد اول ص:۴۲ میں ہے ’’مختلف جلسوں میں اتنا خون نکلا کہ اگر ایک بار آتا ضرور بہ جاتا تو اب بھی نہ وضو جائے نہ کپڑا ناپاک ہو کہ ہر بار اتنا نکلا ہے جس میں بہنے کی قوت نہ تھی‘‘ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا وہ کپڑا جس میں خون بار بار تھوڑا تھوڑا نکل کر جم گیا ہو پاک ہے؟ اگر پاک ہے تو وضو کر کے اس سے چہرہ صاف کرنا جائز ہے؟ براے کرم اس شبہہ کا ازالہ فرمائیں۔

فتاویٰ #1294

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: فتاوی رضویہ کے مسئلے کو بغور پڑھیے فرمایا ہے :’’خون اتنا نکلا کہ اس میں بہنے کی قوت نہ ہو‘‘ اس کی تفصیل اس کے پہلے والے صفحہ میں فرمادی ہے، اسے دیکھ لیں اگر اسی کے مطابق خون نکلا اور وہ کپڑے میں ایک ہی جگہ لگتا گیا اور کئی مجلس میں نکلا تو یہ خون پاک ہے، کپڑے میں اس طرح خون لگا ہو تو کپڑا بھی پاک ہے اور اس میں نماز صحیح(حاشیہ: جیسا کہ فتوے سے ظاہر ہے یہ حکم اس وقت ہے جب خون مختلف نشستوں میں نکلا ہو اور ہر بار اتنا ہی نکلا کہ اس میں بہنے کی صلاحیت نہیں تھی، اور اگر کئی نشستوں میں نکلا تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اس صورت میں کپڑا بھی ناپاک ہوگا۔ فتاوی رضویہ کی متعلقہ عبارت یہ ہے: ’’ابھرنا کہ خون و ریم اپنی جگہ سے بڑھ کر جسم کی سطح، یا دانے کے منہ سے اوپر ایک ببولے کی صورت ہو کر رہ گیا کہ اس کا جرم سطح جسم وآبلہ سے اُوپر ہے مگر نہ وہاں سے ڈھلکا نہ ڈھلکنے کی قوت رکھتا تھا جیسے سُوئی چبھونے میں ہوتا ہے کہ خون کی خفیف بوند نکلی اور نقطے یا دانے کی شکل پر ہو کر رہ گئی آگے نہ ڈھلکی اور اسی قسم کی اور صُورتیں، ان میں بھی ہمارے علماء کے مذہب اصح میں وضو نہیں جاتا ،یہی صحیح ہے اور اسی پر فتوٰی اور اسی حکم میں داخل ہے یہ کہ خون یا ریم اُبھرا اور فی الحال اس میں قوتِ سیلان نہیں اُسے کپڑے سے پونچھ ڈالا، دوسرے جلسے میں پھر اُبھرا اور صاف کردیا یوں ہی مختلف جلسوں میں اتنا نکلا کہ اگر ایک بار آتا ضرور بہہ جاتا تو اب بھی نہ وضو جائے نہ کپڑا ناپاک ہو کہ ہر بار اُتنا نکلا ہے جس میں بہنے کی قوت نہ تھی۔ ہاں جلسہ واحدہ میں ایسا ہوا تو وضو جاتا رہے گا کہ مجلس واحد کا نکلا ہوا گویا ایک بار کا نکلا ہوا ہے۔ یوں ہی اگر خون اُبھرا اور اُس پر مٹی وغیرہ ڈال دی پھر اُبھرا پھر ڈالی اسی طرح کیا تو وضو نہ ر ہے گا ۔ جب کہ ایک جلسے میں بقدر سیلان جمع ہوجاتا کہ یہ بہنے ہی کی صورت ہے اگرچہ عارض کے سبب صرف اُبھرنا ظاہر ہوا اور ایک جلسے میں اتنا ہوتا یا نہ ہوتا اس کا مدار ٹھیک اندازے اور غلبہ ظن پر ہے۔‘‘[فتاوی رضویہ، ج:۱،ص:۴۱-۴۲، کتاب الطہارۃ، باب الوضو، رضا اکیڈمی] محمد نظام الدین رضوی) ؛ اس لیے کہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ ’’جو ناقض وضو نہیں وہ ناپاک نہیں‘‘(یہ ایک فقہی ضابطہ ہے، اس سے پیٹ سے خارج ہونے والی ریح مستثنی ہے کہ ریح ناپاک تو نہیں مگر اس کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس استثنا سے فقہی ضابطے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ فقہی ضابطے عموما اکثری ہوتے ہیں اور حکم اکثری کی بنا پر ہی ان کو ضابطۂ کلیہ اور قاعدۂ کلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اشباہ ونظائر میں بیان کیے گئے ضوابط وقواعد اس کے شاہد ہیں۔ محمد نظام الدین رضوی) جب کپڑا پاک ہے تو اس سے بھیگا ہوا منہ اور دوسرے اعضا پونچھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ا س کپڑے سے بھیگا ہوا مثلا منہ پونچھا تو منہ ناپاک نہ ہوگا لیکن یہ نظافت کے خلاف ہے۔ وھوتعالی أعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved