الجواب : سوال میں حاجی عبد القادر کی کوئی تصریح موجود نہیں ہے ، لیکن ان سے جو پوچھا گیا اور اس کے جواب میں جو اشارہ انھوں نے کیا اس سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ان کا مقصد اپنے متروکہ کو اپنے تینوں بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کرنا تھا ۔ میری سمجھ میں تینوں برابر سے ان کی یہی مراد تھی ۔ اب ظاہر ہے جو بیٹا مر گیا ہے ، اس کے نام کا حصہ سب وارثوں کا ہوگا، لہذا اس متروکہ میں یا اس سے جو جائداد خریدی گئی یا اس سے جو کاروبار کیا گیا ان سب میں محمد برابر کا شریک ہے۔ لیکن چوں کہ عبد الشکور مرحوم نے محمد کی پرورش کی ہے اور کام سکھایا ہے نیز زیادہ ذمہ داری انھیں کی تھی اس لیے وہ اپنے بھائی عبد الشکور کے لیے اپنی خوشی سے کچھ زیادہ حصہ دینے کو آمادہ ہو جائیں تو یہ ان کی بڑی سعادت مندی ہے۔ہذا ما عندی و العلم عند اللّٰہ۔ کتبہ: حبیب الرحمن الاعظمی، مفتاح العلوم،مئوـــــــــ بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ-ہو الموفق للصواب- صورتِ مسئولہ میں محمد نعیم و عبد الحمید و عبد الشکور ترکہ کے مستحق ہیں۔ محمد نعیم و عبد الحمید باستحقاق وراثت اور عبد الشکور باستحقاق وصیت۔ اس لیے ظاہر ہے کہ محمد نعیم و عبد الحمید لڑکے ہونے کی حیثیت سے ترکہ کے مستحق تھے اور عبد الشکور پوتے ہونے کی وجہ سے محجوب تھے اسی وجہ سے حاجی صاحب سے دریافت کرنے کی ضرورت ہوئی اور یہ بھی وجہ ہے کہ سوال میں عبد الشکور کے نام کے ساتھ ساتھ محجوب ہونے کی تصریح کر دی گئی ہے جس سے ذہن محجوبی سے محرومی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ محجوبی کا سبب یہ ہی دونوں لڑکے ہیں ۔ وقتِ اشارہ حاجی صاحب کے ذہن میں یہی تین موجود ہوں گے یعنی عبد الشکور و محمد نعیم و عبد الحمید لہذا ان تینوں کا مشار الیہ یہی تین ہوں گے نہ غیر۔ نیز یہ کہ یہ سوال استحقاق ترکہ سے ہے اور یہ زندوں سے متعلق لہذا اشارہ زندوں کی جانب ہوگانہ مردہ کی جانب۔ نیز دریافت کنندگان نے بھی یہی سمجھا ورنہ عبد الکریم کا لڑکا ہونے کی حیثیت سے مساوی ہونا معلوم پھر پوچھنے کی کیا ضرورت کہ یہ تینوں برابر۔ نیز یہ کہ اگرعبد الکریم کو داخل سمجھتے تو اس تہائی کو عبد الکریم کی بی بی لڑکیاں اور لڑکے کے درمیان تقسیم کرتے کیوں کہ یہ ایسے ورثہ ہیں جن کو قریب قریب سب لوگ جانتے ہیں۔ اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ممکن ہے کہ حاجی صاحب نے لڑکے بچے سمجھا ہو جیسا کہ سوال میں لڑکے بچے کا لفظ موجود ہے تو متعدد انگلیاں اٹھانی چاہئیں کیوں کہ مشار الیہ متعدد ہیں، لیکن اٹھائی ہیں تین جن میں دو تو متعین ایک میں احتمال، ظاہر ہے کہ وہ عبد الشکور ہے کیوں کہ یہ سوال استحقاقِ ترکہ سے ہے یہ زندوں سے متعلق جیسا کہ معلوم ہوا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ اولاد اناث توجہ کی کم مستحق ہوتی ہیں تمام تر توجہ اولادِ ذکور کی جانب مبذول ہوتی ہے اور عبد الکریم کی اولادِ ذکور میں اس وقت یہی عبد الشکور تھا۔ ظاہر ہے کہ یہی حاجی صاحب کا متوجہ الیہ ہوگا اور عبد الکریم کا احتمال اس کا بیان آگے ہے۔ نیز یہ کہ عبد الشکور مراد لینے پر کلام اپنے حقیقی معنی پر رہتا ہے کیوں کہ عبد الکریم خود مراد نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ میت نہ وارث ہو سکتا ہے نہ اس کے لیے وصیت یا ہبہ ہو سکتا ہے۔ درِ مختار میں ہے: ’’والاصل ان المیت لا یستحق شیئاً۔‘‘ اصل یہ ہے کہ میت کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا۔ ہدایہ میں ہے: ’’لان المیت لیس باہل للوصیۃ۔‘‘ وجہ یہ ہے کہ میت وصیت کا اہل نہیں ہوتا۔ اب عبد الکریم سے مراد اس کی اولاد ہوگی اور یہ مجاز ہے اور حقیقت مجاز پر راجح ہوتی ہے۔یہ تمام قرائن دال ہیں اس بات پر کہ اس تین میں عبد الشکور داخل ہے اور یہ غیر وارث ہےاور غیر وارث کو وصیت جائز اور وصیت ثُلث تک صحیح ہوتی ہے۔لہٰذا جو ترکہ سے عبد الشکور کو تہائی ملا ہے وہ بہ طور وصیت ملا اور اس تہائی کا وہ خود مالک ہے، اس میں دوسرا شریک نہیں۔ محمد کو جو کچھ دیا وہ بہ طور تبرع ہے اور تبرع میں رجوع نہیں لہذا محمد سے واپس نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر ان تمام قرائن کو نظر انداز کر دیا جائے جو عبد الشکور کے مراد ہونے پر دال ہیں اور عبد الکریم مراد لیا جائے تو پہلے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میت کے لیے وصیت نہیں ہو سکتی ، لہذا عبد الکریم سے مراد اس کی اولاد ہوگی، اس صورت میں اس تہائی کا مستحق محمد اور عبد الشکور اور لڑکیاں ہوں گی اور وہ تہائی ان تمام پر برابر برابر تقسیم ہوگی۔ ہدایہ میں ہے: ’’ومن اوصی لولد فلان فالوصیۃ بینہم والذکر والانثیٰ فیہ سواء۔‘‘ ہذا ما ظہر لی والعلم عند اللہ۔(فتاوی حافظ ملت) (حاشیہ: اس فتویٰ میں یہ صراحت ہے کہ دو انگلی سے مراد دو زندہ بیٹوں کا حصہ ہے۔ رہ گئی تیسری انگلی تو اس سے مراد یا تو عبد الشکور کے لیے ایک حصہ کی وصیت ہے یا عبد الکریم کے لیے ایک حصہ مان کر اس کی تمام اولاد کے لیے وصیت ہے۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بہت سے عوام کا عرف یہ ہے کہ فوت شدہ بیٹے کو موجود کی طرح فرض کر کے اس کا حصہ متعین کرتے ہیں اور پھر وہ اس کی تمام اولاد کو بانٹ دیتے ہیں۔ اس عرف کے پیشِ نظر تیسری انگلی سے مراد فوت شدہ بیٹے کا حصہ ہے اور یہ حصہ یہاں اس کی اولاد کے لیے وصیت ہے ، کیوں کہ ان کے مرضِ وفات میں عبد الکریم کے لڑے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا ، اس طور پر یہ عبد الکریم کی اولاد کے لیے اس کے مفروضہ حصہ کی وصیت ہے ، لہٰذا قانونِ وصیت کے مطابق وہ حصہ عبد الکریم کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ (مرتب))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org