بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: محمد حسن کا اپنے چچا ولی اللہ کے لیے وصیت کرنا صحیح ہے کیونکہ محمد حسن کے لڑکوں کے ہوتے ہوئے ولی اللہ محمد حسن کے وارث نہیں اور غیر وارث کے لیے وصیت جائز ہے ۔ لہذا ولی اللہ کے لیے وصیت جائز ہوئی مگروصیت صرف ثلث مال میں جاری ہوتی ہے ۔ ثلث سے زاید میں نہیں۔ ہدایہ میں ہے : و لاتجوز بمازاد علی الثلث۔ ولی اللہ کا محمد حسن کی بیوی اور بچوں کی پرورش کرنا یہ تبرع اور احسان ہے اس سے وہ تمام مکانات کے مالک نہیں ہوسکتے البتہ مکانات کے علاوہ محمد حسن نے اتنا ترکہ چھوڑا ہو جو مکانات سے دو گنی قیمت کا تھا تو مکانات وصیت میں ملیں گے ورنہ تمام مکانات کا صرف ثلث ولی اللہ کو وصیت میں ملے گا اور دو ثلث ورثہ پر تقسیم کیا جائے گا ورنہ تو یہ ترکہ کی تقسیم قرض اور وصیت کے بعد ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ١ؕ ۔ بعد ازاں ولی اللہ کو محمد حسن کے مکانات کا ثلث فرضیت میں دیا جائے بعدہ بقیہ دو ثلث محمد حسن کے ورثہ پر تقسیم کیا جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org