22 November, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص نے پانچ بیگہہ زمین ایک سو روپے میں دخلی رہن رکھی، ایک سو روپیہ کاشت کار کو دے دیا اور سرکاری لگان ایک روپیہ بیگہہ اس زمین کا ہے اپنے ذمہ لے لیا۔ کاشت کار کا کہنا ہے کہ تمہارے مبلغ ایک سو روپے ادا کر دوں گا اور زمین واپس لے لوں گا۔ اس صورت میں روپیہ دینے والے کو اس زمین کی پیداوار یا اس کا منافع کھانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ #1228

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: ظاہر ہے کہ مرتہن نے زمین مرہون کی سرکاری لگان اپنے ذمہ خود بخود نہیں لے لیا بلکہ راہن نے اس کے ذمہ دیا ہے اور اس سے یہی طے ہے کہ مرتہن لگان ادا کرتا رہے اور اس کے عوض زمین مرہون سے نفع حاصل کرے، لہذا یہ اجارہ ہوا، یہ جائز ہے ، اگرچہ دخلی رہن جس میں مرتہن شے مرہون سے نفع حاصل کرے ناجائز ہے، سود ہے، حرام ہے۔ لیکن سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے یہ صورت رہن کی نہیں بلکہ اجارہ کی ہے ، لہٰذا نہ سود ہے، نہ حرام،اس لیے کہ رہن دوسرے کی شے کو اپنے حق کے مقابلے میں روکنا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ وصول کر سکے مثلاً قرض کے مقابلے میں مکان یا زمین یا زر یا کپڑا یا تلوار وغیرہ روکنا اپنے قبضہ میں کر لینا رہن ہے۔ ہدایہ میں ہے: الرہن جعل الشیٔ محبوساً بحق یمکن استیفاؤہٗ من الرہن کالدیون۔ یہ صرف قرض کے وصول کے لیے روکنا ہوتا ہے ، اس میں راہن مرتہن پر کچھ واجب نہیں کرتا، نہ اس شے کا کوئی معاوضہ ہوتا ہے اور نہ معاوضہ طے کیا جاتا ہے۔ رہن صرف عقد تبرع ہے۔ ہدایہ میں ہے: لأنہ عقد تبرع لما إن الراہن لا یستوجب بمقابلۃ علی المرتھن شیئا۔ چوں کہ رہن کے مقابلہ میں کوئی معاوضہ نہیں ہوتا، اس لیے مرتہن کا شے مرہون سے انتفاع مقصود نہیں ہوتا۔ سود وہ زیادتی ہے جو عوض سے خالی ہو۔ شامی میں ہے: لإن الربا ھو الفضل الخالي عن العوض۔ دخلی رہن میں مرتہن اپنا قرض بھی پورا وصول کرتا ہے اور شے مرہون سے نفع بھی حاصل کرتا ہے تو یہ نفع عوض سے خالی ہوتا ہے ، اس لیے سود ہوتا ہے ، اور سود کسی طرح جائز نہیں ہے۔ راہن اجازت دے یا نہ دے بہر حال ناجائز ہے۔ شامی میں ہے: لا یحل لہ أن ینتفع بشیٔ منہ بوجہ من الوجوہ و إن أذن لہ الراہن لأنہ أذن لہ في الربا لأنہ یستوفي دینہ کاملا فتبقي لہ المنفعۃ فضلاً فیکون الربا و ہذا أمر عظیم۔ رہن میں سود کی علت یہی ہے کہ مرتہن چوں کہ اپنا قرض پورے کا پورا وصول کرتا ہے لہذا شے مرہون سے اس کا انتفاع معاوضہ سے خالی ہو کر سود ہو جاتا ہے ۔ اور اگر قرض ہی اس کا معاوضہ ہوتا ، کلا یا جزا ً تو سود نہ ہوتا ۔ سود کی دلیل میں شامی کی مذکورہ عبارت اس پر دلیل ہے کہ فرمایا:یستوفی دینہ کاملا۔یعنی مرتہن اپنا قرض پورا پورا وصول کرتا ہے ، اس لیے سود ہوتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ اگر قرض کا کوئی بھی جزاً انتفاع کے مقابلہ میں ہوتا تو سود نہ ہوتا، جس طرح کلا یا جزاء انتفاع کے مقابلے میں ہونے سے سود نہیں ہوتا اسی طرح اگر انتفاع کا مقابلہ کسی دوسری شے سے ہوگا تب بھی سود نہ ہوگا۔ جب زمین مرہون میں کاشت کا معاوضہ قرار پایا، سود ہرگز نہ ہوا، البتہ یہ رہن بھی نہ ہوا، بلکہ اجارہ ہوا، جیسے قرض لینے والا اپنا مکان قرض دینے والے کو رہنے کے لیے دے یا مرتہن شے مرہون کو اجارہ پر لے لے ان صورتوں میں رہن نہیں رہتا بلکہ اجارہ ہوجاتا ہے۔ شامی میں ہے: ولو استقرض دراہم وسلم حمارہ الی المقرض لیستعملہ الی شہرین حتی یوفیہ دینہ او دارہ لیسکنھا فھو بمنزلۃ الاجارۃ الفاسدۃ ان استعملہ فعلیہ اجر مثلہ ولا یکون رھنا۔ یعنی اگر کسی نے کچھ روپیہ قرض لیا اور اپنا جانور قرض دینے والے کو دے دیا کہ اس جانور کو دو ماہ تک استعمال کرے، یہاں تک کہ وہ اس کا قرض ادا کر دے، یا قرض دار نے اپنا مکان قرض خواہ کو رہنے کو دیا بمنزلہ اجارہ فاسدہ کے ہے ، اگر قرض خواہ نے استعمال کیا تو اس پر اجرت مثل لازم آئے گی ، اور یہ رہن نہیں ہوگا۔ اس صورت میں رہن نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ رہن عقد تبرع ہے ، جیسا کہ ہدایہ کے حوالے سے اوپر مذکور ہوا۔ لہذا جب راہن اور مرتہن نے مرہون کا استعمال طے کر لیا تو یہ عقد تبرع نہ رہا ، لہٰذا رہن نہ رہا، اجارہ کے فاسد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ معاوضہ مقرر نہیں کیا اگر معاوضہ مقرر کر لیتا تو اجارہ فاسدہ نہ ہوتا، اور اجرت مثل لازم نہ آتی ۔ صورت مسئولہ میں بھی زمین مرہون کا استعمال طے ہوا ہے اور مرتہن نے استعمال بھی کیا ہے ، لہذا رہن نہیں رہا بلکہ اجارہ ہو گیا اور اس میں چوں کہ معاوضہ مقرر ہے ، اس لیے اجارہ فاسدہ نہ ہوا، بلکہ اجارہ صحیح ہوا۔ کتاب قاضی خاں میں ہے: واذا ارتھن الرجل دابۃ بدین لہ علی الراہن و قبضھا ثم استاجرھا المرتھن صحت الاجارۃ و بطل الرہن حتی لا یکون للمرتھن ان یعود فی الرھن۔ یعنی مرتہن نے کسی جانور کو اپنے قرض کے بدلے رہن رکھا اور اس جانور پر قبضہ کر لیا ، پھر مرتہن نے اس جانور کو اجرت پر لے لیا تو یہ اجارہ صحیح ہے اور رہن باطل ہو گیا، یہاں تک کہ مرتہن کو عقد رہن کے لوٹانے کا حق نہیں رہا ۔ جب عقد رہن منعقد ہونے کے بعد بھی اجارہ سے باطل ہو جاتا ہے تو عقد رہن میں اگر اجارہ ہو تو بدرجہ اولی رہن منعقد نہ ہوگا ، کیوں کہ بعد تحقق شے اس کا بطلان و زوال اشد واہم ہے زوال قبل تحقق شے ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں بدرجۂ اولیٰ رہن نہ ہوا اور اجارہ منعقد ہوا، کیوں کہ اجارہ وہ عقد ہے جو منافع بالعوض پر وارد ہو۔ ہدایہ میں ہے: الاجارۃ عقد یرد علی المنافع بعوض۔ صورت مسئولہ میں زمین مرہون کے منافع کے عوض زر لگان معاوضہ مقرر ہے لہذا اجارہ ہوا، اگر زر لگان زمین مرہون کی اجرت واپسی سے کم ہو تب بھی اجارہ صحیح ہوگا ، اس لیے کہ بیع اور اجارہ میں عاقدین کو معاوضہ کی تعیین کا پورا پورا حق ہوتا ہے ، جس قدر چاہیں معاوضہ مقرر کریں ، ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک روپیہ کی چیز پانچ میں بیچے، اسی طرح اس کو یہ بھی حق ہے کہ پانچ روپیہ کی چیز ایک روپیہ میں بیچے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ اپنے مکان کو جس کا کرایہ ایک روپیہ ہے پانچ روپیہ پر دے ، اسی طرح پانچ روپیہ کرایہ کا مکان ایک روپیہ پر دینے کا اختیارہے۔ یوں ہی اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ مکان یا کھیت پر جو سرکاری ٹیکس یالگان ہے اسی ٹیکس یا لگان پر ایسے مکان یا کھیت کو کرایہ پر دے دے، لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کہ مالک زمین نے زرلگان کو زمین کی کاشت کا معاوضہ قرار دیا تو وہی معاوضہ قرار پایا، اگرچہ واجب اجرت سے کم ہو ، لہٰذا یہ اجارہ صحیح ہوا، نہ سود ہے ، نہ حرام ہے، البتہ اس شبہہ کی بنا پر کہ واجبی اجرت سے کم معاوضہ پر زمین مرہون کو قرض ہی کی وجہ سے دیا ہے ، اس سے بچنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved