بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب : بعون الملک الوھاب۔ نمبر ۱: قرآن مجید رب العزت تبارک و تعالیٰ کا وہ جامع کلام ہے جو تمام اشیا کا روشن وواضح بیان ہے خود ارشاد فرماتا ہے : وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ . اے محبوب ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جو ہر شئی کا روشن بیان ہے۔ قرآن مجید میں یہ مسئلہ بھی مذکور ہے پارہ دوم رکوع سوم آیت کریمہ۔ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ. جو راہ خدا میں قتل کئے گئے انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں ۔ جب شہداے کرام کو قرآن مجید نے زندہ بتایا اور ظاہر ہے کہ سننادیکھنا مدد کرناآثار زندگی ہیں زندوں ہی کے لیے یہ اوصاف ثابت ہوتے ہیں اورجب تک کسی دلیل سے ان کے اضداد بہرا ۔ اندھا، اپاہج ہونا ثابت نہ ہوں زندہ شخص کے لیے یہ اوصاف مانے ہی جاتے ہیں ۔ لہذا جب شہدا کو قرآن مجید نے زندہ فرمایا اور ان کے نہ دیکھنے نہ سننے نہ مدد کرنے کا قرآن و حدیث میں کہیں ذکر، نہ ہی یہ کہیں فرمایا کہ وہ زندہ تو ہیں لیکن نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ مدد کرسکتے ہیں ۔ تو ظاہر ہے کہ وہ سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، مدد کرسکتے ہیں ۔نیز قرآن مجید کی یہ آیت شہدا کی تعریف میں ہے اس مقام پر حق تعالیٰ نے صفت حیات سے ان کی تعریف کی ہے لہٰذا وہ حیات مراد لی جائے گی جو قابل تعریف ہو وہ وہی ہے جس میں سننا ،دیکھنا پایا جائے اور مدد کرنا بھی ممکن ہو، لہٰذا اسی آیت سے شہداے کرام کا سننا ، دیکھنا ، مدد کرنا بھی ثابت ہوا اور اولیاے کرام چونکہ شہدائے عظام کے حکم میں ہیں ۔ لہٰذا ان کا سننا، دیکھنا، مدد کرنا بھی ثابت ہوا۔ غایۃ الامر یہ کہ حیات شہدا قطعی الثبوت ہے ۔ اس پر نص قطعی کی دلالت قطعیہ ہے اور سننے دیکھنے مدد کرنے کا ثبوت اس درجہ کا نہیں ، لیکن اس پر مدار ایمان بھی نہیں جس کے لیے ثبوت قطعی درکار ہو ۔ اولیاے عظام و شہداے کرام کی فضیلت کا اظہار ہے اس لیے اتناہی ثبوت کافی و وافی ہے۔ اس فرق کا ثمرہ یہی ہوا کہ حیات شہدا کا انکار کفر ہوا اورسننے دیکھنے مدد کرنے کا انکار کفر نہ ہوگا ،مگر بد دینی اور شہداے کرام و اولیاے عظام سے بد عقیدگی کی علامت ضرور ہوگا ،جس سے مسلمانوں کو اپنے تحفظ ایمان کے لیے اجتناب ضروری ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ سائل نے جس کو منکر قرار دیا ہے اس سوال میں وہ معترض بناہے اپنی دستی تحریر میں اس شخص نے ان امور کے اضداد کا بڑا زبردست دعویٰ کیا ہے ۔ اس کی عبارت یہ ہے : ”ہمارا اعتقاد ہے کہ اولیا اور شہدا کسی کی مدد نہیں کرتے نہ کرسکتے ہیں اور دیکھتے بھی نہیں اور سنتے بھی نہیں ہیں ۔ گھورے بقلم خود۔“ اس شخص کی جرأت پر حیرت ہے کہ قطعا بے ثبوت بے دلیل بات کو اتنی دلیری سے اپنا عقیدہ بتارہا ہے جس کے ثبوت کے لیے قطعیت درکار ہے۔ یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے جو اپنے ثبوت میں نصوص قطعیہ کا طالب ہے۔ لطف یہ ہے کہ شہدا کے نہ سننے ،نہ دیکھنے پر ،نہ مدد کرسکنے پر ،تو بلا دلیل ہی یقین جمالیا اعتقاد بنالیا اور ان کے اضداد کا دلیری سے انکار کردیا ان کے ثبوت میں اپنے مقابل سے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کا مطالبہ شروع کردیا کیا خوب ۔ خیر اس کو اس وقت منکر و معترض ہی فرض کر کے کلام کیا ہے مسئلہ کا ثبوت بفضلہ تعالیٰ اوپر گزرا آیت کریمہ سے شہدائے کرام کا دیکھنا ، سننا، مدد کرنا ثابت ہوا۔ یہ بھی ظاہر کردیا گیا کہ یہ مسئلہ عقائد و ایمانیات سے نہیں یہ شہدا کے فضائل سے ہے ۔ لہٰذا ظنی ثبوت اس کے لیے کافی وافی ہے فتوی میں اولیاے کرام و شہداے عظام کے دیکھنے ، سننے ، مدد کرنے کا ثبوت کلیۃً موجود ہے جیسا کہ تفصیل سے ظاہر ہوگا، فتوی میں نہ بخاری کا حوالہ ہے نہ امام بخاری کا بلکہ عینی شرح بخاری کا حوالہ ہے اس کی عبارت سے اولیا، شہدا کا سننا ثابت ہے اور سلام کا جواب دینا بھی ثابت ہوتا ہے جو ، جواب سوال پر ایک امر زائد ہے اور رہا ردِّ سلام کا باذن الٰہی مشروط ہونا یہ کسی دعوے کے لیے مضر نہیں ، نہ دیکھنے سننے کے منافی ہے، نہ مدد کرنے کے مبائن ۔پھر اس سے کیا اعتراض جس طرح وہ باذن الٰہی سلام کا جواب دیتے ہیں اسی طرح باذن الٰہی مدد فرماتے ہیں ۔ امام شافعی کے قول سے تین امر ثابت ہوتے ہیں : اول اپنی حاجت کے وقت اولیاے کرام کو وسیلہ قرار دینا ،دوسرے ان کے مزارات مقدسہ پر حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرنا ،تیسرے ان کے وسیلہ وبرکت سے دعا کا جلد مقبول ہونا یہ اولیا کی امداد ہی تو ہے۔ یہ بھی امداد ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں زائرین کے لیے دعا کریں سائل نے غور نہیں کیا اور سمجھ لیا کہ محض ایک امر ثابت ہوتا ہے سائل کے اس قول پر تعجب کہ ۔ سلمان کی حدیث سے کوئی دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔حالاں کہ اس سے لزوماً تینوں امر کا ثبوت ہے کیوں کہ ارواح مومنین کو اس قدر آزادی ہے کہ جہاں چاہیں جائیں ، حتی کہ جسم میں لوٹا دی جائیں تو ان کے لیے علاوہ روحانی دیکھنے، سننے، مدد کرنے کے جسمانی تصرفات بھی ثابت ہوئے کیوں کہ جب جسم میں روح داخل ہوگی تو آدمی سنے گا بھی، دیکھے گا بھی، مدد کرنا بھی ممکن ہوگا سائل کا یہ قول کہ : ’’مفتی نے کوئی قرآنی آیت دعویٰ کے ا ثبات میں نقل نہیں کیا ہے ۔‘‘ قطعاًبے جا ہے ۔ اول تو دعوے کا ثبوت قرآن کی آیت ہی پر موقوف نہیں حدیث شریف ، اجماع امت ، اقوال علما ے معتمدین میں سے ہر ایک سے دعویٰ ثابت ہوسکتا ہے۔ پھر یہ ہٹ کر ناکہ قرآن کی ہی آیت سے ثبوت ہو، نہایت بے جا ہے ۔دوسرے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے پورا فتویٰ پڑھا ہی نہیں چہ جاے کہ غور کرے کیوں کہ مفتی نے حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی کی کتاب’’ تذکرۃ الموتیٰ والقبور‘‘ کی عبارت جو نقل کی ہے اس میں آیت کریمہ بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَرَبِّھِمْ شہدا کے حق میں موجود ہے ۔ اور اسی آیت کا مطلب حضرت قاضی صاحب موصوف نے بیان کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ شہدا کی روحوں کو جسم عطا فرماتا ہے کہ جس جگہ چاہیں سیر کریں اور انبیا و صدیقین کے لیے یہ مرتبہ بدرجہ اولیٰ حاصل ہے اور اولیا، شہدا کے حکم میں ہیں ۔ لہٰذا ان کو بھی یہ آزادی حاصل ہے اولیاء اللہ کی روحیں زمین و آسمان و جنت میں جس جگہ چاہتی ہیں جاتی ہیں دوستوں اور معتقدوں کی دونوں جہان میں مدد کرتی ہیں ، دشمنوں کو ہلاک کرتی ہیں ۔ سائل کو قاضی صاحب کی کتاب تذکرۃ الموتی کی عبارت کو بنظر انصاف دیکھنا چاہیے، کتنی صراحت کے ساتھ کلیۃً دعویٰ کا ثبوت موجود ہے ۔ بفضلہ تعالیٰ سائل کی منشا کے مطابق ان دعووں کا ثبوت قرآن مجید سے مذکور ہوا۔ فتوے کی تفصیل سے بھی کلیۃً دعوے کا ثبوت ظاہر ہوگیا ۔ مولیٰ عزوجل قبول کی توفیق دے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org