8 September, 2024


دارالاِفتاء


اگر کوئی شخص مسلمان اپنا وظیفہ ’’یا شیخ عبد القادر الجیلانی شیئاً للہ‘‘ کرے تو از روے اسلام صحیح ہے یا نہیں ، کیوں کہ للّٰہ کے اندر لام کا معنی ’’لیے‘‘ کے آتا ہے۔ گویا ترجمہ اس کا یہ ہوا کہ ’’یا شیخ عبد القادر جیلانی کچھ دیجیے اللہ کے لیے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ کو سفارشی قرار دے کر مخلوق سے کچھ مانگا جا رہا ہے ۔ اور یہ صحیح نہیں ہے کہ خالق کی سفارش مخلوق کے سامنے پیش کی جائے۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1202

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: اگر کوئی شخص’’یا شیخ عبد القادرالجیلانی شیئاً للہ‘‘ پڑھے تو شرعاً یہ وظیفہ درست ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے شیخ عبد القادر جیلانی محض اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے کچھ عنایت فرمائیے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ﷫ ’’انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ‘‘ میں قضاے حاجت کے لیے ایک ختم کی ترکیب یوں نقل فرماتے ہیں : ’’اول دو رکعت نفل بعد ازاں یک صدیازدہ بار درود و بعد ازاں یک صد یازدہ بار کلمۂ تمجید و یک صد یازدہ بار شیئاً للّٰہ عبد القادر جیلانی بخواند۔‘‘ سائل کا للہ کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کے سفارشی ہونے کا مطلب نکالنا غلط ہے۔(لام) اختصاص کے لیے آتا ہے ۔ یہاں للہ کا مطلب مختصاً لرضاء اللہ ہے ۔ اس معنی کی تائید مشکوٰۃ شریف کی ایک مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے: ’’من أحب للہ و أبغض للہ و أعطی للہ و منع للہ فقد استکمل الإیمان۔‘‘ جس نے صرف اللہ کے لیے محبت کی کسی سے اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور کسی کوصرف اللہ کے لیے کچھ دیا اور کسی سے اللہ کے لیے روکا تو اس نے اپنے ایمان کو کامل بنا لیا۔ دیکھیے اس بات کی تصریح ہے کہ صرف اللہ کے لیے کسی کو کچھ دینا تکمیل ایمان کا ذریعہ ہے ۔ اس کی صورت یہی ہے کہ یہ داد و دہش صرف مالک حقیقی کی رضا اور خوش نودی کے لیے ہو ۔ کیا مستفتی اس حدیث پاک میں اپنے طریقۂ استدلال سے یہ بات ثابت کرے گا کہ اس میں خالق کو مخلوق کا سفارشی قرار دیا گیا ہے۔ اور جب یہاں یہ معنی نہیں تو وظیفہ مذکور فی السوال میں بھی نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved