بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: صورت مسئولہ میں زید کا قول صحیح ہے اور بکر کا قول کہ چرم قربانی زکاۃ کے مثل ہے مسجد و مدرسہ میں صرف نہیں کر سکتے، بالکل غلط ہے ۔ کیوں کہ چرم قربانی اورزکاۃ میں فرق ہے ، زکاۃ میں تملیک ضروری ہے اور چرم قربانی میں تملیک ضروری نہیں ۔ زکاۃ کے مصارف فقر ا و مساکین وغیرہ ہیں اور زکاۃ کا ان کو مالک بنانا ضروری ہے اس لیے مال زکاۃ سے مسجد کی تعمیر نہیں ہوسکتی، نہ میت کے کفن میں صرف ہوسکتی ہے۔ ہدایہ میں ہے : لایبنی بھامسجد ولایکفن بھامیت لانعدام التملیک و ھوالرکن۔ یعنی مال کی زکاۃ سے نہ مسجد بنائی جائے نہ میت کا کفن دیا جائے تملیک نہ ہونے کی وجہ سے جب کہ تملیک زکاۃ میں رکن ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ زکاۃ میں تملیک ضروری ہے بغیر تملیک زکاۃ ادا نہیں ہوسکتی۔ چرم قربانی میں تملیک ضروری نہیں ، فقیروں مسکینوں کو بھی دے سکتے ہیں اور دوسرے کا ر خیر میں بھی خرچ کر سکتے ہیں نیز خود اپنے کام میں بھی لاسکتے ہیں ۔ در مختار میں ہے : (ویتصدق بجلدھا أو یعمل منہ نحو غربال وجراب) و قربۃ و سفرۃ ودلو۔ یعنی چرم قربانی کو صدقہ کردے یا اس سے کوئی ایسی چیز بنائے جیسے چلنی ، تھیلی ، مشکیزہ ، دسترخوان اور ڈول۔ عبارت مذکورہ سے زکاۃ اور چرم قربانی کا فرق ظاہر ہوگیا کہ مال زکاۃ میں تملیک ضروری ہے بغیر اس کے زکاۃ ادا نہ ہوگی، اورچرم قربانی میں تملیک ضروری نہیں چرم قربانی خود اپنے کام میں بھی لاسکتے ہیں ۔ جب چرم قربانی میں تملیک ضروری نہیں تو مسجد و مدرسہ میں بھی صرف کر ناجائز ہے ۔ بکر کو شاید قرآن مجید کی آیت: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ . کے ترجمہ سے دھوکا لگا ہے ۔ یہ سمجھا ہے کہ چرم قربانی بھی اس میں داخل ہے ۔ مگر یہ قطعاً غلط ہے کیوں کہ اس آیت میں مصارف زکاۃ کا بیان ہے ، صدقات سے مراد زکاۃ ہے ۔ تفسیر جلالین شریف میں ہے : إنما الصدقات الزکوٰت مصروفۃ للفقراء الخ۔ تفسیر احمدی میں ہے: ھذہ الآیۃ في بیان مصارف الزکاۃ ۔ اسی میں ہے : لأن المراد من الصدقات المفروضۃ منھا و ھي الزکوٰۃ۔ یعنی اس آیت میں صدقات سے صدقہ فرض مراد ہے اور وہ زکاۃ ہے ۔ اور چرم قربانی صدقہ فرض نہیں ہے ۔ لہٰذا چرم قربانی اس آیت میں ہرگز داخل نہیں، خداوند تعالیٰ بکر کو ہدایت دے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org