8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱).کیا چرم قربانی کی رقم سے مدرسے کی تعمیر ہو سکتی ہے؟ (۲).مدرسین کی تنخواہ بھی دے سکتے ہیں ؟ (۳).عید قرباں کے موقع پر تمام مدارس میں کھال وصول کرتے ہیں تو کس طرح اور کہاں کہاں صرف کر سکتے ہیں تفصیل بیان کی جاوے۔

فتاویٰ #1179

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: (۱).چرم قربانی کا وہ حکم نہیں جو زکاۃ کا ہے۔ زکاۃ فقرا و مساکین کا حق ہے۔ مالِ زکاۃ صرف انھیں پر خرچ کیا جائے گا، نیز زکاۃ میں تملیک شرط ہے، یعنی مستحق زکاۃ کو زکاۃ کا مالک بنا دینا ضروری ہے ورنہ زکاۃ ادا نہ ہوگی۔ چرم قربانی میں یہ کچھ نہیں ۔ چرم قربانی میں قربانی کرنے والوں کو اختیار ہے ، چاہے صدقہ کر دے ،چاہے چمڑا کو اپنے کام میں لائے۔ ہدایہ میں ہے: (ویتصدق بجلدھا) لأنہ جزء منھا (أو یعمل منہ اٰلۃ تستعمل في البیت) کالنطح والجراب والغربال ونحوھا لأن الإنتفاع بہ غیر محرم۔ یعنی قربانی کے چمڑے کو صدقہ کر دے، کیوں کہ وہ قربانی کا جز ہے ، یا اس کی کوئی ایسی چیز بنا لے جو گھر میں استعمال کی جائے، جیسے دستر خوان اور تھیلی اور چھلنی وغیرہ اس سے انتفاع حرام نہیں ۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے: لا باس بأن ینتفع باھاب الأضیحہ أو یشتري بھا الغربال والمنخل۔ یعنی قربانی کے چمڑے سے خود بھی نفع حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس سے چھلنی وغیرہ خرید سکتا ہے۔ تو مدرسہ کو بھی دے سکتا ہے اور چوں کہ اس میں تملیک شرط نہیں لہٰذا مدرسہ کی ہر ضرورت میں صرف کیا جا سکتا ہے، اس کی رقم سے مدرسہ کی عمارت بھی بنا سکتے ہیں ، البتہ قربانی کرنے والا چرم قربانی فروخت کرے تو س کی رقم اپنے کام میں نہیں لاسکتا، مگر اس رقم سے بھی مدرسہ کی تعمیر ہو سکتی ہے اور وہ رقم مدرسہ کی دوسری ضرورتوں میں صرف ہو سکتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (۲).قربانی کرنے والا چرم قربانی فروخت کرے تو وہ رقم خود کسی کی تنخواہ میں نہیں دے سکتا، البتہ وہ رقم متولی مدرسہ کو دے دے تو متولی اپنی طرف سے مدرسہ کی ہر ضرورت میں صرف کر سکتا ہے ، مدرسین کی تنخواہ بھی دے سکتا ہے۔ (۳).متولی مدرسہ یا ناظم مدرسہ چرم قربانی یا اس کی قیمت وصول کرتے ہیں ، اس کے بعد اپنی طرف سے مدرسہ کی ضروریات میں صرف کرتے ہیں ۔ عام مدارس کا یہی طریقہ ہے اور یہ جائز ہے جیسا کہ جواب نمبر ۲؍ سے ظاہر ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب. (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved